سندھ مدرسہ یونیورسٹی کے برطرف ملازمین شیخ الجامعہ کیخلاف سڑکوں پر آگئے

کراچی(رپورٹ: راؤ افنان) سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے برطرف ملازمین نے شیخ الجامعہ کو ہٹانے کا مطالبہ کردیا، شیخ الجامعہ نے آفس سپرنٹنڈنٹ شمس الدین کھوسو کو نہ صرف جبری برطرف کیا، بلکہ اسکے 5 بچوں کو بھی تعلیم سے محروم کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 6 سال میں برطرف ملازمین کی تعداد 100 سے تجاوز کر چکی ہے، وائس چانسلر کی برطرفی تک احتجاج جاری رہے گا۔ یونیورسٹی ترجمان کا کہنا ہے کہ آج تک جتنے بھی ملازمین کو نکالا گیا قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نکالا گیا، شیخ الجامعہ کی اہلیہ ملازم نہیں بلکہ رضا کارانہ طور پر اعزازی خدمات دیتی رہیں۔ تفصیلات کے مطابق سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے برطرف ملازمین کی جانب سے گزشتہ کئی ہفتے سے احتجاج جاری ہے۔سپریم کورٹ رجسٹری کے سامنے برطرف ملازمین نے احتجاج کیا، جس میں ملازمین و ان کے بچوں نے بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ مظاہرین نے اعلیٰ عدلیہ اور صوبائی حکام سے اپیل کی کہ غیر قانونی تعینات وائس چانسلر کو ہٹایا جائے۔ اس موقع پر ملازمین نے‘‘ برطرفیاں بند کرو، ملازمین کو بحال کیا جائے اور جبری ریٹائرمنٹ بند کرو’’ کے نعرے بھی لگائے۔ مظاہرین نے الزام لگایاکہ شیخ الجامعہ اور انکی اہلیہ ملازمین کی تضحیک کرتے ہیں اور حکم نہ ماننے والوں کوبرطرف کردیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ حالیہ برطرف ملازمین میں آفس سپرنٹنڈنٹ مسری چنیو، شمس الدین کھوسو، نائب قاصد شعبان قمبرانی،اسسٹنٹ پروفسیر ثنا بھٹو،سیکورٹی انچارج عنایت نیازی شامل ہیں جبکہ الیکٹریشن یوسف کو برطرف کرنے کی تیاری مکمل کی جا چکی ہے۔برطرف ملازمین کا کہنا ہے کہ 2012 سے یہی معاملہ چل رہا ہے جو ملازم منظور نظر نہیں اس پر جھوٹا الزام لگا کر نکال دیا جاتا ہے، جن کی تعداد 100 سے تجاوز کرچکی ہے، مظاہرین نے انکشاف کیا کہ جامعہ انتظامیہ نے شمس الدین کھوسو کیخلاف انتقامی کارروائی کرتے ہوئے سندھ مدرستہ الاسلام ماڈل اسکول میں زیر تعلیم انکے 5 بچوں کو اسکول سے نکال دیا جبکہ اس سے قبل ہی شمس الدین کھوسو کی بیٹی اقرا اور بیٹا بلال کھوسو فیس قسط وار نہ ہونے پر ابلاغ عامہ کی پڑھائی چھوڑ چکے ہیں۔ ماضی میں اسکول سے نکالے گئے بچوں میں ساتویں جماعت کے طالب علم میر عدنان کھوسو، چوتھی جماعت کے عبدالقدیر کھوسو، دوئم کے حسنین کھوسو جبکہ پہلی جماعت کے صہیب الدین کھوسو اور علی عباس کھوسو شامل ہیں۔ خبر پر موقف کیلئے شیخ الجامعہ محمد علی شیخ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ موقف کیلئے دفتر تعلقات عامہ سے رابطہ کرلیں، جس پر ترجمان مصطفیٰ جتوئی نے تردید کی کہ شمس الدین کھوسو کا اس عمر کا نہ کوئی بیٹا ہے اور نہ ہی اسے اسکول سے نکالا گیا۔ ان کا کہنا تھا ان کی ایک بیٹی جامعہ میں زیر تعلیم تھی، جس کی تعلیم مالی تنگی کی وجہ سے خود شمس الدین نےچھڑائی۔ انہوں نے تردید کی کہ کسی ملازم کی تضحیک نہیں کی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی مقدمہ درج ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملازمین کا برطرفی کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے،اس پر احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ شیخ الجامعہ کی اہلیہ کا جامعہ میں کیا عہدہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ملازم ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی عہدہ ہے البتہ وہ ماضی میں رضا کارانہ طور پر انتظامی خدمات دیتی رہی ہیں۔

Comments (0)
Add Comment