کراچی ( رپورٹ : صفدر بٹ )حکومتی غفلت سے جاپانی تنظیم کے تعمیر کردہ چلڈرن اسپتال کو تالے لگ گئے۔ فنڈز کی عدم فراہمی کےباعث نارتھ کراچی چلڈرن اسپتال کی انتظامیہ 350 سے زائد ملازمین کو 3 ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کر سکی، جس کی وجہ سے ضلع وسطی کے تقریباً 24 لاکھ بچے سرکاری علاج کی سہولتوں سے محروم ہو گئے ہیں ۔ روزنامہ ‘‘امت ’’نے 10اکتوبر کی اشاعت میں ہنگامی بنیاد پر مالی معاملات بہتر نہ کئے جانے کی صورت میں چند یوم میں اسپتال کے عملی طور پر بند ہونے کے خدشات کا اظہار کیا تھا ۔ تفصیلات کے مطابق جاپانی تنظیم جائیکا نے کروڑوں روپے کی لاگت سے مارچ 2015میں بچوں کا جدید اسپتال تعمیر کر کے مکمل طبی آلات و مشینری کے ساتھ محکمہ صحت کے حوالے کیا تھا ،جسے ایک سال 9ماہ تک فعال کرنے میں ناکام رہنے پر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانے کیلئے دسمبر 2016میں پی ای آئی نامی این جی او سے معاہدہ کیا گیا تھا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کی جانب سے این جی اوکو اسپتال چلانے کیلئے سالانہ 44کروڑ روپے فراہم کئے جا تےہیں ۔ضلع وسطی کے 24لاکھ سے زائد بچوں کو 24گھنٹے طبی سہولیات فراہم کرنے والے اس جدید اسپتال میں ڈاکٹرز ، نرسز ، پیرا میڈیکل اسٹاف سمیت 350 سے زائد ملازمین این جی او کے ماتحت فرائض انجام دیتے ہیں۔ اسپتال کے مالی معاملات پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کیلئے تھرڈ پارٹی آڈٹ کرایا جاتا ہے اور گزشتہ سال کے بجٹ میں آڈیٹر نے اپنی آبزرویشن دی تھیں جس پر رواں برس اسپتال کا بجٹ ریلیز نہیں ہو سکا اور اس کا خمیازہ ابتدا میں ملازمین کو بھگتنا پڑا اور وہ اپنی 3ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہیں۔ جبکہ اب این جی او نے ادویات کی عدم دستیابی کو جواز بنا کر ایمر جنسی سروس بند کر کے اسپتال کو تالے لگا دیئے ہیں ۔اس حوالے سے محکمہ صحت کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔تنخواہوں سے محروم ملازمین کا کہنا تھا کہ کہ یہ کیسی حکومت ہے جسے کچھ خرچ کئے بغیر ہی غیر ملکی تنظیم کی جانب سے کروڑوں روپے مالیت سے آلات و مشینری سمیت تیار حالت میں ملنے والا جدید سہولتوں سے آراستہ اسپتال ملا تھا ،جسے نجی شعبے کی معاونت سے بہترین انداز میں چلایا جارہا تھا ،لیکن اچانک بجٹ فراہمی میں تعطل پیدا کرکے اسے تباہی سے دوچار کر دیا گیا ہے ، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہنگامی بنیادوں پر اسپتال کا بجٹ ریلیز کیا جائے ،تاکہ بچوں کو علاج کی فراہمی شروع ہو سکے اور ملازمین کی تنخواہیں ادا ہو سکیں ۔ سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر آصف زمان نے ‘‘امت ’’کو بتایا کہ ملازمین کو تنخواہ فراہم کرنا این جی او کی ذمہ داری ہے اور بجٹ میں کوئی آبزرویشن آئی ہیں تو اس کا جواب بھی وہی دےگی ، لیکن اچانک ہی اسپتال میں ایمر جنسی سروس بند کر دی گئی ، جس پر سی ای او کو لیٹر لکھا ہے کہ اگر نہیں چلا رہے تو اسپتال کے اثاثے ہمارے حوالے کئے جائیں ،تاکہ مریضوں کو ہنگامی طبی امداد دے سکیں ، لیکن کوئی جواب نہیں ملا ، انہوں نے مزید بتایا کہ وزیر صحت کی ہدایت پر اسپتال میں بچوں کو اوپی ڈیز کی سہولت دی جا رہی ہے ، جبکہ ایمرجنسی کیسز کو بھی محکمہ صحت کے ڈاکٹروں نے دیکھا ہے ، آج ڈائریکٹر صحت بھی اسپتال کا دورہ کریں گے ۔اس حوالے سے چلڈرن اسپتال کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر فاطمہ نےگفتگو میں آڈیٹر کی جانب سے آبزرویشن کی تصدیق کی اور کہا کہ پی ای آئی کی انتظامیہ نے آبزرویشن کے حوالے سے 2لیٹر ارسال کئے ہیں اور حکومت سے بھی بات چیت کر رہی ہے تاہم بغیر بجٹ کے کب تک بچوں کو معیاری علاج کی سہولیات کیسے فراہم کی جا سکتی ہیں ۔