لاہور (نمائندہ امت) مسلم لیگ نواز کی اعلٰی قیادت فوری طور پر ایسے ”موڈ“ میں جانے کو تیار نہیں ،جس سے عمران خان کی کمزور حکومت کے بجائے مقتدر حلقوں کو براہ راست سامنے آنے کہ موقع مل جائے۔ اسی لئے اے پی سی خود جانے سے نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کے اصرار کے باوجود انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف فوری طور پر کسی حکومت مخالف تحریک یا ایوان کے اندر تحریک عدم اعتماد کا نواز لیگ اور اس کی قیادت کے فائدے میں نہیں دیکھتے ہیں۔ اس لئے اپنے اور اپنے خاندان کے اہم افراد کے خلاف مقدمات کے کسی رخ پر ڈالے جانے سے پہلے کوئی عملی قدم نہیں اٹھانا چاہئے۔ ” امت“ کے ذرائع کے مطابق نواز لیگ کی اعلیٰ قیادت سست روی اختیار کئے رکھنے کے حق میں ہے، جبکہ پی پی پی کے آصف علی زرداری اور جمعیت علما اسلام ف کے مولانا فضل الرحمان جلدی میں فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔ نواز لیگ کے ان ذرائع کے بقول آصف زرداری اپنے مقدمات اور نیب کارروائیوں سے نکلنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کا سہارا چاہتے ہیں، جبکہ مولانا فضل الرحمان نواز لیگ اور پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کی موجودہ مشکلات اپنے لئے فوری مفید بنا کر اپنا سیاسی قد مزید بلند کرنا چاہتے ہیں، تاکہ کسی وقت اعلیٰ ترین ملکی ذمہ داریوں کا نئے سرے سے فیصلہ ہو تو ان کا نام نمایاں طور پر زیر بحث آنے والے ناموں میں سے ایک ہو۔ ’’امت“ کے ذرائع کے مطابق نواز لیگ آصف علی زرداری کو گرفتاری سے بچنے میں مدد دینے کو تیار ہے، لیکن ایسا ”رسک“ نہیں لینا چاہتی جس کا فائدہ صرف پی پی پی کو ہو اور نوازلیگ کو کچھ نہ ملے، وہ ایسی صورت حال بھی پیدا نہیں کرنا چاہتے کہ عمران خان کی کمزور حکومت ختم ہو جائے۔ اس کے بعد مضبوط اسٹبلیشمنٹ سامنے آ کھڑی ہو۔ اس لئے میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمٰن سے بار بار دریافت کیا کہ کامیاب اے پی سی، کامیاب حکومت مخالف تحریک اور عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد منظر کیا ہوگا۔ کیا مقتدر حلقے نئے عام انتخابات کرائیں گے یا صورت حال پہلے سے بھی زیادہ گمبھیر ہوجائے گی۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف کے بقول جب اے پی سی میں ساری بھاری بھر کم سیاسی قیادت جمع ہوگی تو لامحالہ میڈیا اور عوام سوال کرے گی کہ حکومت کے خاتمے کے لئے کیا ڈیڈ لائن دی۔ لیکن فی الحال نواز لیگ کو ایسی ضرورت نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز لیگ اپوزیشن جماعتوں کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر آنے کے لئے موجودہ ”ٹائمنگ“ کو درست تصور نہیں کرتی ہے۔ اس لئے ابھی اچھے وقت کا گھروں میں بیٹھ کر اور کم بول کر انتظار کیا جائے گا۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ 31 اکتوبر کو اے پی سی کے انعقاد کا اعلان بھی نواز لیگ کی مرضی کے بغیر کر دیا گیا تھا۔ اب نواز لیگ کا وفد اے پی سی میں جائے گا، لیکن اعلامیہ میں کوئی ڈیڈ لآئن دی جائے گی، نہ حتمی مطالبات کئے جائیں گے۔ صرف رسمی مطالبات ہو جائے اور عمران حکومت کے خلاف ایک نپا تلا سا دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ زیادہ سے زیادہ ایک ڈھیلے ڈھالے سے اپوزیشن اتحاد کی کوئی صورت سامنے آسکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نواز کی اعلیٰ قیادت کے اپوزیشن کی اے پی سی کے سلسلے میں شروع ہونے والی کوششوں کے دنوں میں یہ اصولی نتائج اخذ کئے ہیں کہ ایسی کسی کوشش سے شہباز شریف کے خلاف کیسز میں کمزوری آئے نہ وہ رہا ہوسکیں گے اور نہ ہی مسلم لیگ نواز کو کوئی فائدہ ہوگا۔ اس لئے فی الحال اے پی سی میں اپنا سارا وزن ڈال دینا الٹا نقصان کا باعث بن جائےگا۔