تیل کمپنیوں کے نام پر ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ کا انکشاف

کراچی( رپورٹ :عمران خان) پیٹرولیم کمپنیوں کے نام پرسندھ بھر میں روزانہ لاکھوں لیٹر ایرانی ڈیزل اور پیٹرول اسمگل کیا جا رہا ہے۔ کسٹم کلکٹوریٹ حیدر آباد نے تازہ کارروائی میں بائیکو پیٹرولیم کمپنی کے نام پر ایرانی ڈیزل اسمگل کرنے والی گاڑی کو قبضے میں لے لیا ، جس میں25ہزار لیٹرایرانی ڈیزل موجود ہے ۔ بائیکو پیٹرولیم کمپنی کے نام پر ایرانی ڈیزل اسمگل کرنے والےٹینکر گزشتہ کئی برس سے پیٹرول پمپوں پرڈیزل اور کیروسین آئل سپلائی کر رہے ہیں ، جس سے پیٹرولیم کمپنیوں کے سندھ بھر میں موجود پیٹرول پمپس کے مالکان اربوں روپے کا ناجائز منافع کمانے کے علاوہ قومی خزانے کو کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔کسٹم انٹیلی جنس حیدر آباد نے اسمگلنگ کا ایرانی ڈیزل اور پیٹرول فروخت کرنے والے مختلف پیٹرولیم کمپنیوں کے پمپس مالکان کو تحقیقات میں شامل کرکے انہیں طلب کرلیا ہے تاکہ ان سے بیانات لے کر اسمگلنگ میں ملوث مافیا کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جاسکے۔‘‘امت ’’کو کسٹم کلکٹوریٹ حیدر آباد اور ڈائریکٹو ریٹ کسٹم انٹیلی جنس حیدر آباد کے حکام نے بتایا ہے کہ اندرون سندھ کے بڑے شہروں بشمول حیدر آباد ،سکھر ،نواب شاہ ،لاڑکانہ ،جیکب آباد اور ان کے ملحقہ علاقوں میں ایرانی ڈیزل اور پیٹرول کی اسمگلنگ کا منظم نیٹ ورک قائم ہوچکا ہے یہاں تک کے 22ہزار لیٹر سے لے کر 44ہزار لیٹر تک ایرانی ڈیزل اور پیٹرول سے بھرے درجنوں ٹینکر روزانہ کی بنیاد پر پیٹرولیم کمپنیوں جن میں شیل پاکستان ،بائیکو وغیرہ شامل ہیں ۔ ان کے پیٹرول پمپوں پر اسمگل شدہ ایرانی ڈیزل اور کیروسین آئل سپلائی کرنے میں مصروف ہیں ۔ اس اسمگلنگ کے لئے جو ٹینکر استعمال کئے جا رہے ہیں ۔ان پر ایل پی جی ٹرمینل اور بائیکو پیٹرولیم کی کمپنیوں کے نام درج ہیں ،جبکہ ایران سے اسمگل ہو کر آنے والے کیرو سین آئل کو سپلائی کرنے کے لئے ”وائٹ اسپرٹ “ کے نام سے جعلی انوائس استعمال کی جا رہی ہیں۔ کسٹم حکام کے مطابق گزشتہ ہفتے کسٹم کلکٹوریٹ حیدر آباد کی ٹیم نے خفیہ اطلاع پر چھاپہ مار کر بائیکو کمپنی کے نام پر چلنے والے ٹینکر نمبر TUB-890کو تحویل میں لیا ، جس کے ٹینکر میں 25ہزار لیٹر ایرانی ڈیزل بھرا ہوا تھا اور یہ ٹینکر اندرون سندھ میں پیٹرول پمپ پر سپلائی کیا جا رہا تھا ۔ اس ضمن میں ‘‘امت ’’کو کسٹم کلکٹر حیدر آباد خالد جمالی نے بتایا کہ مذکورہ ٹینکر میں موجود اسمگل شدہ ایرانی ڈیزل کی مالیت 30لاکھ روپے سے زائد ہے ،ان کامزید کہنا تھا کہ ٹینکر کے حوالے سے مزید تحقیقات جاری ہیں ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بائیکو پیٹرولیم کمپنی کے نام پر چلنے والی گاڑیوں کے علاوہ حالیہ دنوں میں تین ایسے ٹینکر بھی پکڑے گئے ہیں، جو کہ ایل پی جی امپورٹ کے نام پر ایرانی ڈیزل اور کیروسین سپلائی کرنے رہے تھے ۔ ان ٹینکروں پر ایل پی جی کے پرنٹ تھے ۔کسٹم حکام کے بقول یہ نیٹ ورک کئی برسوں سے منظم انداز میں چلایا جا رہا ہے اسی طرح سے کسٹم انٹیلی جنس حیدر آباد کے ڈائریکٹو ریٹ کے افسران سے معلوم ہوا ہے کہ حالیہ دنوں میں تین ٹینکروں کو قبضے میں لیا گیا جن کے ڈرائیوروں کے پاس وائٹ اسپرٹ کے امپورٹ کے کاغذات تھے تاہم جب ٹینکروں میں موجود تیل کو لیبارٹری سے چیک کروایا گیا تو وہ کیروسین آئل نکلا جسے ایران سے اسمگل کرکے اندرون سندھ کے پیٹرول پمپس پر سپلائی کیا جا رہا تھا۔ اس ضمن جب ڈپٹی ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس حیدر آباد شاہ فیصل سہو سے موقف لینے کے لئے ان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وائٹ اسپرٹ کی آڑ میں کیروسین آئل مختلف پیٹرولیم کمپنیوں کے پمپس پر سپلائی کرنے والوں کے خلاف تین مقدمات درج کئے جاچکے ہیں جس پر تحقیقات جاری ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کیروسین آئل تقریباً تمام ہی پیٹرولیم مارکیٹنگ کمپنیوں کے پیٹرول پمپس پر ڈیزل میں شامل کیا جارہا ہے اور ڈائریکٹو ریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن حیدر آباد کی ٹیمیں اس نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے کوشش کر رہی ہیں ۔ مزید معلوم ہوا ہے کہ پیٹرولیم مارکیٹنگ کمپنیوں کے پیٹرول پمپس کے مالکان کو تحقیقات میں شامل کرکے طلب کرلیا گیا کیونکہ پکڑے جانے والے ٹینکرز کے ڈرائیوروں نے تفتیش میں انکشاف کیا ہے کہ وہ کئی برسوں سے یہ آئل مختلف پیٹرولیم کمپنیوں کے پمپوں پر سپلائی کر رہے تھے۔ کسٹم ذرائع کے بقول اسمگلنگ کے اس نیٹ ورک میں بعض سرکاری اداروں کے افسران اور اہلکار بھی شامل ہیں ، جس کی وجہ سے 44ہزار اور 50ہزار لیٹر سے لبالب بھرے ہوئے ٹرک قانونی راستوں سے ایران سے بلوچستان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ، کیونکہ اتنے بھاری بھرکم ٹینکر کچے پکے راستوں سے نہیں آسکتے اور صرف پکی سڑکوں سے ہی آسکتے ہیں تاہم اس کے لئے وائٹ اسپرٹ ظاہر کرکے انہیں جعلی انوائس پر پاکستان لایا جاتا ہے جبکہ اندرون سند ھ میں بھی کسٹم سمیت بعض اداروں کے افسران اور اہلکار بھاری رشوت کے عوض اس نیٹ ورک کی سرپرستی کر رہے ہیں جبکہ پیٹرولیم کمپنیوں کی جانب سے بھی اس لئے صرف نظر کیا جاتا ہے کہ قانونی امپورٹ میں انہیں زیادہ سے زیادہ ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں ،لیکن اسمگل شدہ پیٹرولیم مصنوعات میں انہیں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہوتا ہے اور ا س پر ٹیکس اور ڈیوٹی کی ادائیگی بھی نہیں کرنی پڑتی ہے ۔

Comments (0)
Add Comment