اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ) سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس فیصلے پر نظرثانی کی نیب کی درخواست خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو(نیب)عدالتی فیصلے میں کوئی بھی قانونی سقم پیش کرنے میں ناکام رہاہے ،اس لیے نظرثانی اپیل مسترد کی جاتی ہے ،جبکہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے نیب کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ عدالت نے نیب کی سیاسی دباؤ والی دلیل پر فیصلے میں مشرف کا ذکر کیا، نیب نے ملزمان کے بیرون ملک جانے میں مدد کرنے پر مشرف کیخلاف کیس کیوں نہیں کیا؟۔پیراگراف میں یہی لکھا ہے نا کہ اس وقت ملک پر ایک جرنیل حکمران تھا اور نیب کا سربراہ بھی ایک جرنیل تھا ،نیب اپنی ساکھ کیوں خراب کر رہا ہے،کیا نیب ہرملزم کوجلاوطن کر سکتا ہے۔نیب چاہتا ہے پاکستان کی تاریخ کو وائٹ واش کر دیا جائے، عدالت کا کام نیب کو قانون پڑھانا نہیں۔نیب پاناما فیصلے سے جو چاہے اخذ کرے۔ پاناما بینچ نے حدیبیہ کو کہیں تحقیقات میں شامل نہیں کیا۔ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164کے تحت بیانات سالوں سے ریکارڈ ہو رہے ہیں، سلطانی گواہ کا بیان مجسٹریٹ یا چیئرمین نیب کے پاس ریکارڈ نہیں ہو سکتا تھا۔انھوں نے یہ ریمارکس پیر کے روزدیے ہیں ۔سماعت شروع ہوئی تواس دوران قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکیوٹر نے عدالت سے فیصلے کا ایک پیراگراف حذف کرنے کی استدعا کی تو بنچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ نیب اس کو حذف کیوں کرانا چاہتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ پڑھ لیں، پاکستان کی تاریخ دہرانے سے شرمندہ کیوں ہیں۔؟ آپ کو اس پیراگراف سے کیا تکلیف ہو رہی ہے؟ توقع ہے کہ آپ مشرف کی نہیں ،نیب کی وکالت کریں گے، اس پیراگراف میں یہی لکھا ہے نا کہ اس وقت ملک پر ایک جرنیل حکمران تھا اور نیب کا سربراہ بھی ایک جرنیل تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب کو اس پیراگراف کو حذف کرانے سے کیا دلچسپی ہے اور پیراگراف ہونے سے نیب کی صحت پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟ نیب کسی اورکی جنگ لڑ رہا ہے۔جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے سماعت کی۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے نظر ثانی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے فیصلے میں حدیبیہ ریفرنس میں ملزمان پر فرد جرم عائد نہ کئے جانے کو نظرانداز کیا ۔اس لئے عدالتی فیصلہ درست تناظر میں نہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ اگر 30سال تک فرد جرم عائد نہ کریں تو عدالت کیا کرے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ فرد جرم عائد ہو جاتی تو ملزمان جواب دیتے۔جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ اس کیس میں جرم کب سرزد ہوا؟ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ1992میں جرم ہوا۔ جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ پھر نیب نے ریفرنس کب دائر کیا؟نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ2000 میں نیب نے ریفرنس دائر کیا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اس دوران ملک پر فوجی حکمران تھا تو فرد جرم عائد کیوں نہ کی؟ کیا نیب پر اس وقت بھی کوئی سیاسی دباوٴ تھا؟۔ جسٹس مظہر عالم نے پوچھا کہ ریفرنس کو غیر معینہ مدت تک کیلئے زیر التوا رکھنے کی درخواست کس نے کی؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہم نے احتساب عدالت سے یہ درخواست کی تھی۔ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ کب تک ایک بندے کو لٹکائے رکھیں گے،18سال سے ملزمان کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ 36صفحات کے فیصلے پر 39صفحات کی نظر ثانی درخواست دائر کی۔ جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ فیصلے میں غلطی یا قانونی سقم کا بتائیں۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان اہم ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ وہ ضمنی معاملہ ہے، اصل ریفرنس کا بتائیں، اگر ڈار کے بیان کو مان بھی لیا جائے تو مقدمے پر کیا اثر پڑے گا؟جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ اسحاق ڈار کے بیان کا مقدمے سے تعلق ثابت کریں۔ نیب کے پراسییکیوٹر نے کہا کہ اس کیلئے عدالت ریکارڈ منگوالے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ریکارڈ پیش کرنا نیب کا کام تھا۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ پاناما کیس نظر ثانی فیصلے سے دکھانا چاہتا ہوں۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پہلے اس فیصلے میں غطی دکھائیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کیا کہ آپ کو کیس میں متعلقہ قوانین پڑھنے کا کہا ہے، یا آپ سب کچھ اس لئے پڑھ رہے ہیں کہ چیئرمین نے کہا کہ کیس میں پورا زور مارنا ہے، جب تک فیصلے میں غلطی نہیں بتائیں گے آپ کو کسی دوسری عدالت کا فیصلہ پڑھنے کی اجازت نہیں۔جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ نیب نے 2008میں ریفرنس بحال کروایا۔ نیب کے دوسری بار ریفرنس سرد خانے کی نذر کروایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ عدالت نے نیب کی سیاسی دباؤ والی دلیل پر فیصلے میں مشرف کا ذکر کیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ فیصلے میں طیارہ سازش کا بھی ذکر کیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ یہ تو چور کی داڑھی میں تنکے والی بات ہے۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ طیارہ سازش کیس کا نیب سے کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ مشرف کے کنڈکٹ کا ذکر کیا گیا نیب کا نہیں۔ جسٹس فائز عیسی نے پوچھا کہ نیب نے ملزمان کے بیرون ملک جانے میں مدد کرنے پر مشرف کیخلاف کیس کیوں نہیں کیا؟نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب کے اٹک قلعے میں ٹرائل پر بھی سوال اٹھایا گیا، نیب کو اختیار ہے ریفرنس کہیں بھی دائر کر دے۔ جسٹس عیسیٰ نے کہاکہ پاناماکا یہاں تذکرہ نہ کریں۔ پراسیکیوٹرنے کہاکہ ہائی کورٹ نے حدیبہ کیس میں ازسرنو تحقیقات سے روکا تھا۔ پاناما فیصلے میں نیب کو تحقیقات کی ہدایت کی گئی ۔عدالت نے کہا تھا اپیل آنے پر جائزہ لیا جائے گا، کیا ہم نے نیب کو تحقیقات سے روکا۔ جسٹس فائزنے کہاکہ نیب اپنی ساکھ کیوں خراب کر رہا ہے۔پراسیکیوٹرنے کہا کہ نواز شریف جلاوطنی معاملے کا۔کیس سے تعلق نہیں تھا۔ جسٹس قاضی نے کہا کہ کیا ہم نے نیب کو تحقیقات سے روکا، اگر سپریم کورٹ کی ہدایت ہے تو عمل کیوں نہیں کرتے۔پراسیکیوٹرنے کہاکہ آپ کا فیصلہ نیب کی راہ میں رکاوٹ ہے۔جسٹس قاضی فائزنے کہاکہ پاناما فیصلے میں حدیبیہ ملز کا نام پیش تھا۔نیب پراسیکیوٹرنے کہاکہ عدالت نے قاضی فیملی۔شیخ سعید اور سعید احمد کیخلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا۔تمام نامزد افراد حدیبیہ ملز کیس سے منسلک ہیں۔جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہاکہ عدالت کا کام نیب کو قانون پڑھانا نہیں۔نیب پاناما فیصلے سے جو چاہے اخذ کرے۔جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ پاناما بینچ کو حدیبیہ کیس شامل کرنے سے کسی نے نہیں روکا تھا۔ پاناما کیس میں دیگر کمپنیوں کے نام آئے۔عدالت کو مکمل اختیار تھا کسی بھی کمپنی کیخلاف تحقیقات کا حکم دیتی۔جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہاکہ پاناما بینچ نے حدیبیہ کو کہیں تحقیقات میں شامل نہیں کیا۔بعد ازاں عدالت نے نیب کی حدیبیہ پیپرز ملز فیصلے پر نظرثانی کی درخواست خارج کر دی۔ عدالت نے لکھا کہ نیب فیصلے میں قانونی سقم کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہا۔واضح رہے کہ نیب نے دوسری بار نظرثانی کی درخواست دائرکی تھی ،جوکہ سپریم کورٹ نے مسترد کردی۔