آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ حکومت کے گلے پڑ گیا

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی/نمائندہ امت) آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ حکومت کے گلے پڑ گیا۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کے زبانی حکم پر جاری کیا گیا تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو آج طلب کرلیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے معاملے پر کمیٹی بنانے کا عندیہ دے دیا اور اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ پولیس میں سیاسی مداخلت برداشت نہیں کرینگے۔ دوسری جانب بنی گالہ اراضی کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان کی طلبی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کامعاملہ اٹھانے والے اپنے گھر کا جرمانہ ادا کریں- جوگھر بھی راستے میں آئے گاوہ گرجائے گا- تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی اعظم سواتی نے وفاقی پولیس کے سربراہ کا تبادلہ کراکرتحریک انصاف حکومت کے لیے پریشانی پیداکردی، تبادلے میں وزیراعظم عمران خان کا نام بھی آرہاہے۔ اٹارنی پاکستان انور منصور خان نے پیر کے روز سپریم کورٹ میں آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا ریکارڈ پیش کرتے ہوئے تسلیم کیاکہ آئی جی اسلام آباد جان محمد کو وزیراعظم عمران خان کے زبانی حکم پر ہٹایا گیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ نے سچ بولا ہے یا نہیں ہم اس معاملے پر کمیٹی بنائیں گے، ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ کسی وزیر کی سفارش پر آئی جی کا تبادلہ کیا گیا، ہم اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے اور پولیس میں سیاسی مداخلت بھی برداشت نہیں کریں گے، قانون کی حکمرانی قائم ہوگی،عدالت کے طلب کرنے پر سیکریٹری داخلہ اعظم سلیمان عدالت تاخیرسے پہنچنے پرسخت برہمی کااظہار بھی کیااور چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی آمد کی اطلاع ہمیں دی گئی، کورٹ لگی تو آپ غائب ہو گئے، کیا ججز آپ کا انتظار کرنے کے پابند ہیں؟ جبکہ دوسری جانب سیکریٹری داخلہ نے آئی جی اسلام آبادکے تبادلے سے یکسرلاعلمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ انھوں نے نہیں یہ تبادلہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے کیاہے ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران انسپکٹر جنرل اسلام آباد جان محمد کے تبادلے کا نوٹس لیاتھا۔انہوں نے پہلے سیکریٹری داخلہ کو طلب کیا جبکہ بعد میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ وفقے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سیکریٹری داخلہ آئے ہیں؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے کہا کہ انہیں بلایا ہے وہ آرہے ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری داخلہ تمام ریکارڈ ساتھ لائیں اور بتائیں تبادلہ کیوں ہوا، ہم ریاستی اداروں کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سارے معاملات سرکار پر نہ چھوڑیں، ایسے تبادلوں کو عدلیہ برداشت نہیں کرے گی، ایک تبادلہ پنجاب میں بھی ہوا ہے اور یہ تبادلہ چند دنوں میں ہوا ہے، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آفس رپورٹ دے۔اس موقع پر سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا ریکارڈ طلب کرلیا اور ہدایت کی کہ سیکریٹری داخلہ کو کہیں کہ دونوں پولیس افسران کا ریکارڈ دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بتایا جائے کہ یہ تبادلے کب ہوئے اور چند دن کی تعیناتیوں کے بعد آئی جیز کے تبادلے کیسے کردیے گئے۔بعد ازں سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے، جہاں دیر سے آنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ تبادلہ میں نے نہیں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے کیا، جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو پتہ ہے کہ تبادلہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے کیا تو ان کو بھی بلوا لیتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا اب ہم یہاں بیٹھ کر انتظار کریں اور لْڈو کھیلیں۔چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ آپ کے آئی جی کا تبادلہ کردیا گیا، اسلام آباد کی پولیس کس کے اختیار میں آتی ہے؟ جس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ پولیس محکمہ داخلہ کے اختیار میں آتی ہے لیکن تبادلے کے وقت مجھ سے پوچھا نہیں گیا۔اس دوران اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت سے درخواست کی گئی کہ وہ کیس کی سماعت ملتوی کریں، جس پر چیف جسٹس نے اسے مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ساڑھے 3 بجے تک تمام مصروفیات ترک کرکے پہنچیں۔ عدالت نے کیس کی مزیدسماعت آج منگل تک کے لیے ملتوی کردی ۔جبکہ دوسری جانب وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی نے کہا کہ میں نے کوئی خلاف قانون کام نہیں کیا،میرے گھرپرحملہ کرکے ملازمین کوزخمی کیاگیا،عام شہری کی حیثیت سے آئی جی اسلام آبادسے رابطے کی کوشش کی،وفاقی وزیر کا کہناتھا کہ آئی جی اسلام آبادنے 22 گھنٹے تک میرافون نہیں سنا،تنگ آکرمعاملہ وزیراعظم اورسیکرٹری داخلہ کے نوٹس میں لایا۔اعظم سواتی نے کہا کہ کیاعام شہری کی حیثیت سے تحفظ کامطالبہ کرنامیراحق نہیں؟کوشش کے باوجودسیکرٹری داخلہ کابھی آئی جی سے رابطہ نہیں ہوسکا،سپریم کورٹ میں پیش ہوکراپناموقف پیش کروں گا،امیدہے چیف جسٹس کواپناموقف سمجھانے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔ دریں اثنا بنی گالا میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثارنے کہا کہ وزیراعظم عمران خان بنی گالا میں آج ہی اپنے گھر کا جرمانہ ادا کریں۔ فیصلہ آج نہیں ہوتا تو وزیراعظم خود آ کر وضاحت پیش کریں سپریم کورٹ میں بنی گالا میں غیرقانونی تعمیرات کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گزشتہ سماعت پرعدالت نے کمیٹی تشکیل دی تھی،رپورٹ کیلئے مہلت دی جائے۔عدالت نے استدعا مستردکردی۔چیف جسٹس ثاقب نثارنے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے غیر قانونی تعمیرات کامعاملہ خوداٹھایاتھا،وہ آج ہی اپنے گھرکاجرمانہ اداکریں،یاوزیراعظم خودآکروضاحت پیش کریں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت تعمیرات سے متعلق شرائط تیارکررہی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اب تومعاملہ اٹھانیوالوں کے پاس خود حکومت ہے، وزیراعظم 24 گھنٹے میں میٹنگ بلا کرفیصلہ کریں فوری اجلاس بلائیں اپنا گھرریگولرائزکرواکردوسروں کیلئے مثال بنیں۔رپورٹ آج پیش کی جائے۔سپریم کورٹ میں کورنگ نالہ آپریشن کیخلاف نظرثانی درخواست کی سماعت بھی ہوئی۔ درخواست گزارکے وکیل نوازکھرل نے کہا کہ میرے موکل کی زمین سرکاری نہیں ہے۔ عدالت نے سماعت کے بعد نظر ثانی درخواست خارج کردی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ جوگھرراستے میں آئیگاوہ گرجائیگا۔چیف جسٹس نے کہاآج رات تک بنی گالہ کاکیس ختم کرنا ہے،بینک کھلے رکھیں یا پیسے نکلوا کررکھیں، ہوسکتا ہے گھر ریگولرائز کرنے کیلئے آج ہی جرمانہ جمع کرانا ہو۔عدالت نے بنی گالا میں جائیدادوں کی ریگولرائزیشن نہ کرائے جانے پر اظہار برہمی کیا اور وزیراعظم عمران خان کی نمائندگی کرنے والے وکیل بابر اعوان سے کہا کہ وزیراعظم کو بتائیں کہ ریگولرائزیشن کروائیں، لیڈر کو مثال قائم کرنی پڑتی ہے، یہ آپ کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا 10 دن کا وقت دیا تھا ابھی تک کوئی پیش رفت کیوں نہیں ہوئی؟اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر رضوی نے عدالت کو بتایا کہ سیکریٹری داخلہ نے عدالت کے حکم پر بنائی گئی ریگولرائزیشن کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد کیا ہے، صرف 10 دن کی مہلت دے دیں، جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ ایک دن کی بھی مہلت نہیں دیں گے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیکریٹری داخلہ کی زیر صدارت کمیٹی کا اجلاس ہے، 3 بجے تک کی مہلت دے دیں، اس پر عدالت نے رات 10 بجے سے پہلے ٹھوس اقدامات کے بارے آگاہ کرنے کا حکم دیا جب کہ کیس کی مزید سماعت آج 30 اکتوبر کو ہوگی۔

Comments (0)
Add Comment