اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ) سپریم کورٹ نے پانی بیچنے والی تمام کمپنیوں کے مالکان کواگلے منگل کوعدالت میں طلب کرلیاجبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ پاکستان کوئی لوٹ کامال نہیں ،پانی پبلک پراپرٹی ہے اس کی قیمت یکساں ہونی چاہیے ،۔کراچی میں ایک گھنٹے میں ہزاروں لیٹر پانی نکالا جا رہا ہے، پانی بیچنے والی کمپنیوں کے مالکان بڑے بڑے لوگوں کے پاس بھاگ رہے ہیں، سفارشیں کرا رہے ہیں کہ 10پیسے فی لیٹر ٹیکس لگائیں، کیوں لگا دیں۔منرل واٹر کمپنیاں اربوں روپے کھا گئی ہیں، کیا پاکستان کو کچھ دینا بھی ہے، چھوٹی کمپنیاں ویسے بند کر رہے ہیں بڑی کمپنیاں آکر جواب دیں۔میں نے منر ل واٹر پینا چھوڑ دیاہے انھوں نے یہ ریمارکس منگل کے روزدیے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے زیر زمین پانی نکالنے کے معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے بوتل کا پانی پینا بند کر دیا قوم سے بھی کہتا ہوں آپ بھی بوتل والا پانی بند کر کے گھڑے کا پانی پی لیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں کراچی میں نیسلے کے پلانٹ کو دیکھنے گیا، نیسلے پانی کا پورا پلانٹ معیاری نہیں تھا، انہیں زمین مفت لیز پر دی گئی ہے، نیسلے کا پانی کا نمونہ حاصل کیا وہ بھی معیاری نہیں تھا۔پانی کی کوالٹی دیکھ کر ہمارے ایکسپرٹ نے کہا کہ اس سے اچھا دریا کا پانی پی لیں، منرل واٹر کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔عدالت نے حکم دیا کہ آڈیٹر جنرل نیسلے کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں پیش کریں، جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ نیسلے کے بارے میں رپورٹ 2 دن میں آجائے گی۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ کراچی میں ایک گھنٹے میں ہزاروں لیٹر پانی نکالا جا رہا ہے، پانی بیچنے والی کمپنیوں کے مالکان بڑے بڑے لوگوں کے پاس بھاگ رہے ہیں، سفارشیں کرا رہے ہیں کہ 10پیسے فی لیٹر ٹیکس لگائیں، کیوں لگا دیں پاکستان کیا لوٹ کا مال ہے، جو مقدمات ہم سن رہے ہیں انہیں منطقی انجام تک پہنچائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پانی پبلک پراپرٹی ہے اس کی قیمت یکساں ہونی چاہیے، چاروں صوبے نرخ طے کرنے کے لیے میٹنگ کریں۔چیف جسٹس نے نیسلے کمپنی کے وکیل سلمان اکرم سے استفسار کیا کہ ایک لیٹر کتنے کا بیچ رہے ہیں، جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ایک لیٹر پانی 55روپے کا بیچ رہے ہیں، چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ نیسلے والوں نے اربوں روپے کا پانی مفت میں استعمال کیا۔ دورانِ سماعت ماہر ماحولیات نے بتایا کہ منرل واٹر کمپنیاں جو بوتلیں استعمال کر رہی ہیں وہ خوراک کے طے کردہ اصولوں پر پورا نہیں اترتیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جی ٹی روڈ پر جائیں سارا دن بوتلیں ہوٹلوں پر دھوپ میں پڑی رہتی ہیں، دھوپ میں رہنے کے باعث پلاسٹک کی بوتل خراب ہوجاتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی انسان بھی 50سے 55روپے کا پانی بیمار ہونے کے لیئے نہیں خریدتا، قصور اور شیخوپورہ میں پانی میں آرسینک آرہی ہے۔چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ زیر زمین پانی عوامی ملکیت ہے، منرل واٹر کمپنیاں مفت پانی بیچ رہی ہیں، سندھ میں ایک روپیہ بھی نہیں دیا جارہا۔جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ پانی پر ڈیڑھ روپے فی لیٹر پیسے لینے کی تجویز ہے، سندھ لوکل گورنمنٹ کے تحت تمام صنعتوں سے ٹیکس لیں گے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ منرل واٹر کمپنیاں اربوں روپے کھا گئی ہیں، کیا پاکستان کو کچھ دینا بھی ہے، چھوٹی کمپنیاں ویسے بند کر رہے ہیں بڑی کمپنیاں آکر جواب دیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر حکومتی افسران وطن سے عشق میں آبی کانفرنس میں آتے تو پتہ چل جاتا کہ کہاں کہاں پانی کا مسئلہ ہے۔اس دوران چیف سیکریٹری پنجاب نے عدالت کوآگاہ کیا کہ پانی کی قیمت مقرر کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے چنانچہ واٹر ایکٹ میں یہ چیز یں لے کے آرہے ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون موجود ہے اس کے اندر رہتے ہوئے کر سکتے ہیں۔سیکریٹری پنجاب نے عدالت میں کہا کہ پنجاب میں فی لیٹر ایک روپے اور خیبر پختونخوا میں ایک روپے 20پیسے نرخ مقرر ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 18لیٹر پانی کی بوتل کی لاگت 160روپے ہے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایک بوتل پر 60روپے منافع کمایا جا رہا ہے۔جس پر وکیل پانی کمپنی کا کہنا تھا کہ یہ اعداد وشمار درست نہیں ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں وکیلوں کی فیس اور اعلیٰ افسران کی تنخواہیں بھی شامل کی ہوں گی۔دورانِ سماعت خیبر پختونخوا کے وکیل نے عدالت کو بتایاکہ پانی کے حوالے سے کے پی کے کا کوئی مصدقہ ڈیٹا نہیں کہ کتنا پانی زیر زمین سے نکال کر بیچا جا رہا ہے۔بعد ازاں چیف جسٹس نے آئندہ منگل کو منرل واٹر کمپنیوں کے مالکان کو طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔