اسلام آباد(خبرنگارخصوصی)پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین 19ویں صدی میں برصغیر میں انگریزوں کے رائج قوانین کے مرہون منت ہیں۔ تقسیم ہند سے تقریباً ایک صدی قبل 1860 میں انگریزوں نے مذہبی نوعیت کے بڑھتے ہوئے مذہبی جرائم کے سبب دفعہ 295، 296 اور 298 کے نام سے تین نئے قوانین انڈین ضابطہ تعزیرات میں شامل کیے ۔ان کے تحت کسی عبادت گاہ کی بے حرمتی کرنا، مذہبی تقریب میں خلل ڈالنا اور مذہبی جذبات کو دانستہ طور پر مجروح کرنا جرم قرار دیا گیا ۔انگریزوں کے بنائے گئے یہ قوانین کسی مخصوص مذہب کے لیے مختص نہیں تھے اور نہ ہی ان میں سے کسی قانون میں موت کی سزا متعین کی گئی تھی۔ان قوانین کے لاگو ہونے کے بعد 1860 سے لے کر 1947 تک بر صغیر میں توہین مذہب کے پانچ مقدمے درج ہوئے تھے جب کہ پاکستان بننے کے بعد سے لے کر 1980 تک ملک بھر میں توہین مذہب کے آٹھ مقدماعت درج ہوئے جن میں سے کوئی بھی مقدمہ گستاخی رسول یا قرآن کی بے حرمتی کا نہیں تھا۔پاکستان بننے کے 30 سال بعد 1977 میں صدر ضیا الحق نے اپنے 11 سال کے دورِ حکومت میں ملک کے آئین میں مزید تبدیلیاں کیں جن میں سے پانچ شقیں توہین مذہب کے قانون میں شامل کی گئیں۔ان ترامیم میں شامل 295-B کے تحت قرآن کی بےحرمتی کرنے پر عمر قید کی سزا مقرر کی گئی جبکہ سب سے اہم ترمیم، 295-سی کے تحت پیغمبرِ اسلامؐ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی سزا موت یا عمر قید بشمول جرمانہ مقرر کی گئی۔1990 میں وفاقی شرعی عدالت نے حکم سنایا کہ دفعہ 295-C کے تحت توہین رسالت کی سزا صرف موت ہوگی۔