اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )آسیہ بی بی پر جون 2009 میں اس کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین نے الزام لگایا تھا کہ آسیہ بی بی نے پیغمبر اسلام کی شان میں نازیبا کلمات ادا کیے ہیں۔اگلے سال ٹرائل کورٹ نے اس مقدمے پر فیصلہ سناتے ہوئے ملزمہ کو سزائے موت دی۔سال 2014 میں آسیہ بی بی کی لاہور ہائی کورٹ میں اپیل مسترد کر دی گئی اور سزائے موت کا فیصلہ برقرار رہا جس کے بعد اس نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔سال 2016 میں اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں شروع ہونی تھی لیکن بینچ میں موجود ایک جج نے اپنی شمولیت سے معذرت کر لی۔اس سال 8اکتوبر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی تین گھنٹے طویل سماعت کی جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔آسیہ بی بی کی رہائی کے لیے دنیا بھر سے اپیلیں ہوئیں اور ماضی میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے گارڈ ممتاز قادری نے اسی بنیاد پر ہلاک کیا تھا کہ سلمان تاثیرنے آسیہ بی بی کی حمایت میں بیان دیا تھا۔