کراچی (رپورٹ : سید نبیل اختر) نیو اسلام آباد ایئر پورٹ میں اربوں روپے کرپشن کی تحقیقات کیلئے نیب ٹیم نےچھاپہ مار کر سی اے اےدفتر کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا، پروجیکٹ ڈائریکٹر سمیت 6 افسران سے 6 گھنٹے تک پوچھ گچھ ہوتی رہی، تحقیقاتی ٹیم ایئرپورٹ ٹرمینل اور کارگو کمپلیکس سمیت دیگرحصوں کےتعمیراتی اخراجات سےمتعلق سوالات کرتی رہی، آڈیٹر جنرل کی جانب سے پروجیکٹ پر کئے گئےآڈٹ اعتراضات دور نہ کرنے سےمتعلق بھی سوالات کئے گئے۔ اہم ذرائع نے بتایا کہ بدھ کی صبح نیب راولپنڈی کی 6 رکنی ٹیم نے نیو اسلام آباد ایئر پورٹ پر واقع سول ایوی ایشن آفس پر چھاپہ مار کر وہاں موجود پروجیکٹ ڈائریکٹر سمیت دیگر افسران و ملازمین سے پوچھ گچھ کی۔ ذرائع نے بتا یا کہ نیب حکام نے ایف آئی اے کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے برعکس تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے، جس میں 7 ڈائریکٹر جنرلز سمیت 29 افسران کو 57 ارب کی کرپشن کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ سی اے اے ذرائع نے بتا یا کہ تحقیقاتی ٹیم اپنے ہمراہ آڈٹ اعتراضات پرمشتمل ایک سوالنامہ لائی تھی اور افسران سے سوالات کئے جاتے رہے۔ معلوم ہوا ہےکہ تحقیقاتی ٹیم نےپروجیکٹ کےفیز کےحوالے سےسوالات کئے اور اس سےمتعلق دستاویزات قبضے میں لیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ نیب حکام پروجیکٹ کے پی سی ون اور نظر ثانی پی سی ون سے متعلق سوالات کررہے تھے، جس کی وجہ سے منصوبے کی لاگت بڑھی۔ ذرائع نے بتا یا کہ قبل ازیں اس سے متعلق 2014 میں آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں بھی سوالات اٹھائے تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ معاملے پر آڈٹ نے جو رپورٹ دی تھی،اس میں پروجیکٹ کےنظرثانی پی سی ون کی 81 ارب 17 کروڑ 10 لاکھ روپےکی منظوری دی گئی تھی،جس میں دیگر اخراجات اور کلیم شا مل نہ تھے، کلیم و دیگر کیلئے 14 ارب مختص کئے گئے، جس میں دیگر اخراجات و کلیم کی ادائیگی ہونا تھی، پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے جون 2016 کی حتمی تاریخ دی گئی، تاہم حقائق اسکے منافی تھے کہ فنانشل اور حساس تجزیاتی رپورٹ گمراہ کن ہے اور حقائق کے برعکس بنائی گئی تھی۔ آڈٹ رپورٹ میں اس وقت انکشاف کیا گیا تھا کہ پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے ایروناٹیکل و نان ایروناٹیکل سے ملنے والے 24 ارب 48 کروڑ روپے اصل پی سی ون میں شامل نہیں کئے گئے تھے، نتیجتاً منصوبہ فنانشل اور تکنیکی لحاظ سے ناقابل عمل تھا۔ منصوبے کا پی سی ون پروجیکٹ مینجمنٹ کنسلٹنٹ کی جانب سے تیار کیا گیا تھا ،جس نے 2016 میں پروجیکٹ مکمل کرنا تھا، تاہم نامکمل ہونے کے باوجود اس پر کوئی جرمانہ نہ کیا گیا۔ مختلف پیکیجز میں ٹینڈر کرتے وقت پی سی ون کو یکسر نظر انداز کیا گیا، جس کے نتیجے میں منصوبہ تاخیر کاشکار ہوا۔ ماہانہ پروگریس رپورٹ کے مطابق جون 2016 تک مجموعی طور پر 63 فیصد ادائیگی کی جاچکی تھی۔ دوسری جانب سی اےا ے ذرائع نے بتایا کہ نیب حکام نے نظرثانی شدہ پی سی ون میں زر مبادلہ کے 19 ارب سے متعلق بھی سوالات کئے۔ سی اےا ے ذرائع نے امت کو بتا یا کہ نیب ٹیم نے نظرثانی پی سی ون کی منظوری کے باوجود 7 ان کاموں کے ٹھیکے تفویض نہ کرنے سے متعلق بھی سوالات کئے، جن میں بیگیج ہینڈلنگ اور اسپیشل ایئرپورٹ سسٹم، فرنیچر اینڈ سائینج، پسنجر بورڈنگ برجز، اسٹیٹ لاؤنج ، کسٹمز، امیگریشن اور اینٹی نارکوٹکس فورس کے دفاتر، رین واٹر ڈیم اور لنک روڈ شامل تھے۔ نیب حکام نے ایگزیکٹو کمیٹی آف نیشنل اکنامک کونسل کی منظوری سے بچنے کیلئے فارن کمپونینٹ کیلئے 19 ارب 82 کروڑ 80 لاکھ کی رقم سے متعلق بھی سوالات پوچھے، جوکہ ریوائزڈ پی سی ون کی رقم کا 24.24 فیصد تھا، کیونکہ 25 فیصد مختص کرنے پر کونسل کی منظوری لینا لازم تھی۔ سی اے اے ذرائع نے بتا یا کہ اس سلسلے میں پہلے ہی آڈٹ رپورٹ میں بتا یا جاچکا تھا کہ اصل پی سی ون کے مطابق پروجیکٹ پر 100 فیصد لاگت سی اے اے نے فراہم کرنا تھی جبکہ نظرثانی پی سی ون کے مطابق مجموعی لاگت کا 70 فیصد 56 ارب 82 کروڑ سی اے اے کی جانب سے فراہم ہونا تھا جبکہ بقیہ 30 فیصد جو 24 ارب 35 کروڑ 10 لاکھ بنتے ہیں، قرض حاصل کرنے کے بعد پروجیکٹ پر لگنے تھے۔ سی اے اے ذرائع نے بتا یا کہ نیب حکام نے سی اے اے افسران سے کارگو کمپلیکس کی تعمیرات میں ڈیڑھ ارب سے زائد اضافی خرچ سے متعلق بھی سوالات کئے۔ اس سلسلے میں ذرائع نے بتا یا کہ 2008 میں نیو اسلام آباد ایئر پورٹ کے پی سی ون میں کارگو ٹرمینل کی تعمیر کی لاگت کی منظوری4کروڑ 8لاکھ حاصل کی گئی تھی، تاہم اس کی تعمیر کا کام ایئر سائیڈ انفرااسٹرکچر اور پیسنجر ٹرمینل کی تکمیل کے بعد شروع کیا جانا تھا، تاہم2012 میں ہی ایئر سائیڈ انفرا اسٹرکچر کی تکمیل سے قبل ہی کارگو کمپلیکس کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا، جس کیلئے پیکج ون میں 37کروڑ 90لاکھ کی رقم علیحدہ سے مختص کردی گئی، 2نومبر 2012کو کارگو کمپلیکس کے اسٹیل ورک کا ٹھیکہ بذریعہ ٹینڈر ایک دوسرے ٹھیکے دار کو 65کروڑ کا دیا گیا تھا، جس میں سے 64کروڑ 99لاکھ 90ہزار روپے کی ادائیگی ٹھیکے دار کو کردی گئی، معاہدے کے تحت منصوبے پر جزوی عملدرآمد کی اجازت نہیں تھی، مزید برآں کارگو کمپلیکس ایئر سائیڈ انفرا اسٹرکچر اور ٹرمینل بلڈنگ سے قبل ہی تعمیر کردیا گیا تھا، جبکہ کمرشل آپریشن شروع نہیں ہوسکتا تھا، لہٰذا اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ قواعد کیخلاف ٹینڈر جاری کئے بغیر کمپلیکس کی تعمیر سے ڈیڑھ ارب سے زائد کا نقصان پہنچا۔ ذرائع نے بتایا کہ نیب حکام کارگو کمپلیکس اور ٹرمینل بلڈنگ سے متعلق شواہد اکھٹا کرنے آئے تھے اور کافی تعداد میں فائلیں لے کر روانہ ہوگئے۔