اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس میں اعظم سواتی اور ان کے بچوں کی جائیداد کی تفصیلات طلب کرلیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف صرف قانون کی کتاب میں رکھنے کیلئے نہیں اب اس کے اطلاق کو بھی دیکھیں گے۔ کیا وزیر کا یہی کام ہوتا ہے متاثرہ خاندان کو اعظم سواتی کے خلاف پرچہ درج کروانا چاہیے، تحقیقات کیلئے ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائیں گے۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ تبادلے پر لئے گئے ازخود نوٹس میں وفاقی وزیر فواد چودھری کی وضاحت قبول کرتے ہوئے ان کو معاملے سے بری الذمہ قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اعظم سواتی کے فارم ہاوٴس کے ساتھ 40کنال رقبے پر قبضے کا سروے کرایا جائے گا۔تین رکنی عدالت بنچ نے آئی جی تبادلے کیس میں وفاقی وزرا فواد چودھری اور اعظم سواتی کے بیانات پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت کے بلانے پر فواد چودھری عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ فواد، آپ سے یہ توقع نہیں تھی۔ فواد چودھری نے سلام کرنے کے بعد کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی، میرا پورا بیان رپورٹ ہوا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے خود ٹی وی پر سنا، ابھی عدالت میں چلا دیتے ہیں، وہ کیا آپ نے طوطا مینا کی کہانی، آپا زبیدہ کی زبانی سنائی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کس کیلئے کہا کہ بیورو کریسی نے حکمرانی کرنا ہے اور الیکشن ہی نہ کرائیں، حکمرانی تو آپ نے ہی کرنی ہے، اگر آئی جی کی تبدیلی کا آرڈر قانون کے مطابق ہوتا تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔فواد چودھری نے کہا میں تو آپ سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں مگر اداروں میں اختیارات کی تقسیم آئین کے تحت ہے اس کو بھی دیکھنا ہوگا، اسی طرح بیورو کریسی کو وزرا کی بات سننا ہوگی۔ فواد چودھری نے کہا کہ جی ٹی روڈ پر اگر امن و امان کی صورتحال میں ایس پی کو فون کروں تو ان کو میرا فون سننا چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ کسی کا ذاتی معاملہ ہو سکتا ہے کہ اس میں رعونت ہو مگر یہاں عدلیہ کے بارے میں اپنے بیان کا دفاع کرتے ہیں تو ہم اس کیس کو چلائیں گے۔فواد چودھری نے کہا کہ عدلیہ کے خلاف بیان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، میں نے عدلیہ کے بارے میں نہیں کہا، ہماری اتنی جرات ہی نہیں۔ فواد چودھری نے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ عدلیہ کے بارے میں ایسی بات کروں۔ اگر آپ بھی واضح کر دیں کہ آئی جی یا بیورو کریسی سے کام لینا اور ان کو احکامات دینا حکومت کا اختیار ہے تو۔چیف جسٹس نے کہا کہ بالکل اختیار ہے مگر ایک صاحب کہتے ہیں کہ آئی جی نے میرا فون کیوں نہیں سنا اس کا تبادلہ کر دیا جائے۔ فواد چودھری نے کہا کہ وہ ایک صاحب نہیں بلکہ وفاقی وزیر ہیں اور ان کا فون سننا چاہئے تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک غریب آدمی کی وفاقی وزیر کے سامنے کیا اوقات ہے، ان کے گھر کی حالت دیکھی ہے آپ نے؟ انہوں نے وفاقی وزیر سے کیا مقابلہ کرنا تھا؟عدالت نے اپنے آرڈر میں فواد چودھری کی وضاحت لکھوانے کے بعد ان کا مخاطب عدلیہ نہ تھی جانے کی اجازت دیدی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اعظم سواتی کہاں ہیں، وہ تو رات سے شور ڈال رہے تھے کہ عدالت میں آنا چاہتا ہوں، جس طرح مسعود صاحب ٹی وی اینکر اور پھر ارشد اے آر وائے نے بھی عدالت آنے کا کہا تھا ان کو بھی بلایا تھا معافی مانگنا پڑی۔ سواتی صاحب بھی آ جائیں۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ وہ بچے کہاں ہیں ان کو بھی لے آئیں کیا حراست میں ہیں؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کو رہا کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ آئی جی ابھی ملک سے باہر ہیں، اس وقت ملک میں امن و امان کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے سیکرٹری داخلہ کو جانے کی اجازت دی جائے، کیس پرسوں تک ملتوی کر دی جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اعظم سواتی کی زمین کا سروے کرا لیتا ہوں، فارم کے ساتھ 40کنال پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فواد جی، آپ کے اچھے کیلئے کر رہا ہوں، آپ کے اندر سے گند صاف کر رہے ہیں، ڈھور ڈنگر فارم میں آ گیا تو اس قدر آپے سے باہر ہو گئے۔ فواد چودھری نے کہا کہ اعظم سواتی شریف آدمی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شریف نہیں، ہمیں نہیں پتہ کہ شریف ہیں۔ سواتی میں اتنی انا ہے کہ آئی جی سے کہا کہ میرا فون کیوں نہ سنا، بندوں کو اندر کیوں نہیں تن دیا۔عدالت نے کیس کی سماعت پرسوں تک ملتوی کرنے کا آرڈر لکھوایا جس کے کچھ دیر بعد اعظم سواتی عدالت پہنچے۔ چیف جسٹس نے تاخیر سے حاضری پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ بڑا شور مچا رہے تھے عدالت جا کر وضاحت کروں گا، ساری باتیں ٹی وی پر کرنی تھیں تو عدالت کیوں آئے۔اعظم سواتی نے کہا کہ مسئلے پر تمام افسران سے بات کی مگر کسی نے شکایت نہیں سنی، مجھے قتل کرنے اور گھر کو بم سے اڑانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ چیف جسٹس نے اعظم سواتی اور بچوں کی جائیداد کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہاکہ آرٹیکل 62ون ایف صرف کتاب میں رکھنے کیلئے نہیں اب آرٹیکل 62ون ایف کے اطلاق کو بھی دیکھیں گے، کیا وزیر کا یہی کام ہوتا ہے، کیا صادق و امین غریبوں کو تنگ کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے اعظم سواتی کومتاثرہ خاندان کو دھمکیاں دینے پر تنبیہ کی اور کہا کہ جن کے جان و مال کا تحفظ کرنا تھا ان ہی کے پیچھے پڑ گئے، ایک بے چاری ماں کو جیل بھیج دیا، متاثرہ خاندان کو اعظم سواتی کے خلاف پرچہ درج کروانا چاہیے، معاملے کی تحقیقات کیلئے ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائیں گے۔ چیف جسٹس نے اعظم سواتی کو دیکھتے ہی کہا کہ وہ بھینس کدھر ہے واپس کی یا ابھی بند کی ہوئی ہے؟۔ اعظم سواتی نے کہا کہ میں نے تمام افسران سے بات کی مگر میری شکایت نہیں سنی گئی، مجھے کہا گیا آئی جی سے بات کریں، مجھے دھمکیاں دی گئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ غریب لوگوں کو اندر کروا دیا آپ نے، ہم اس معاملے پر ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائیں گے، ان تمام پولیس افسران کو بھی بلائیں جنھوں نے معاملے کی تفتیش نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی پی او پاکپتن کے معاملے پر بھی ہم نے رعایت کر دی تھی اس لیے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، اس پر ہم آرٹیکل 62ون ایف کے اطلاق کو بھی دیکھیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے ہوتے ہیں صادق و امین جو غریبوں کو تنگ کرتے ہیں، آرٹیکل 62ون ایف اسی لیے موجود ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جن کے جان و مال کا تحفظ کرنا تھا انھی کے پیچھے پڑ گئے، اپنی انا کا اتنا استعمال کریں جنتی اللہ نے دی، ایک بے چاری ماں کو جیل بھیج دیا۔ آپ کی کتنی زمین ہے۔ اعظم سواتی نے جواب دیا کہ 40کنال زمین ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سنا ہے آپ نے چاردیواری کے باہر باڑ لگائی ہوئی ہے۔ اینکر سلیم صافی نے عدالت میں پیش ہو کر بتایا کہ متاثرہ خاندان پہلے ہی آئی ڈی پیز ہیں، ان کے گھر کا سربراہ کریانہ سٹور پر کام کرتا ہے، جس دن واقعہ ہوا تب سے پولیس ان کو تنگ کر رہی ہے، متاثرہ خاندان نے روٹی بنوانے کیلئے آٹا بھیجا مگر پڑوسیوں نے پولیس کے ڈر سے روٹیاں نہیں بنا کر دیں۔سلیم صافی نے بتایا کہ باجوڑ کے عمائدین، دو ایم این ایز اور ایک سینیٹر کے ذریعے راضی نامے کی کوشش کی گئی، راضی نامہ ہونے پر متاثرہ بچے نے شدید ردعمل دیا، ان دو ایم ایز اور سینیٹر کو بھی عدالت طلب کر کے پوچھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اعظم سواتی میں آپ کو تنبیہہ کر رہا ہوں کہ متاثرہ خاندان پر دباو نہیں ڈالیں گے، متاثرہ خاندان کو چاہئے کہ اعظم سواتی کے خلاف پرچہ درج کروائیں۔