سپریم کورٹ نے شک کا فائدہ دے کر آسیہ کو بری کیا

اسلام آباد( اخترصدیقی ) سپریم کورٹ نے آسیہ مسیح کو شک کا فائدہ دے کربریت کاحکم جاری کیا۔تمام الزامات کومستردکرتے ہوئے عدالت عالیہ لاہور اور ماتحت عدالت کی طرف سے سزائے موت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا۔فیصلہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے تحریرکیاہے جوکہ اردومیں 33 صفحات پر مشتمل ہے ۔اس فیصلے کی تائیدمیں جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ نے بھی 24 صفحات تحریرکیے ہیں ۔کل 57صفحات پرمشتمل فیصلہ ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے فیصلے میں قرآن وحدیث کے حوالے بھی دیے ہیں ۔جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ مذہب اور پیغمبر اسلام کی توہین کی سزا موت یا عمر قید ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے چار نکات پر انحصار نہیں کیا۔جس میں ہائی کورٹ نے لکھا تھاکہ چشم دیدگواہان اور اپیل گزار کی فالسہ کھیت میں موجودگی سے کسی نے انکار نہیں کیا،گواہان سے اپیل گزارکے ہاتھوں توہین رسالت پر کوئی دفاعی جرح نہیں کی گئی ،وکیل صفائی نے اپیل گزار اور چشم دیدگواہوں کے مابین سابقہ دشمنی ،کینہ ،بعض اور درپردہ اغراض جن کی بناپراپیل گزار کواس سنگین جرم میں پھنسایاگیاکی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ادریس جوموقع کاچشم دیدگواہ تھا اس کی گواہی باقی گواہوں کے بیانات کی تصدیق کرتی ہے ۔جبکہ سپریم کورٹ نے ان نکات پر انحصار کرنے کے بجائے ان باتوں پر زیادہ دھیان دیاہے جس میں کہاگیاہے کہ شکایت کنندہ قاری سلام کووقوعے کی اطلاع کس نے دی ،جرم کے ارتکاب کاانکشاف کے وقت وہاں کون کون موجودتھا،عوامی اجتماع اور اس کی تعدادمیں فرق ،اجتماع کے مقام اور اپیل گزار کے گھرسے اس کافاصلہ اور یہ کہ اپیل گزار ملعونہ آسیہ کووہاں اجتماع میں کون لایااور کس طرح سے لایا۔اس طرح سے گواہوں کے درمیان بعض معاملات میں لوگوں کی تعداد اور دیگر حوالوں سے جوکہاگیااس کوفیصلے کاحصہ بنایاگیاہے ۔عدالت نے عدالت عالیہ کے اس نکتے پر بھی بات کی ہے جس میں انھوں نے کہاہے کہ جس بیان کوملزم مستردنہ کرے ،یعنی بیان کاوہ حصہ جس کاانکار نہ کیاجائے تسلیم شدہ قر ار دیاجاتاہے۔ اس پر چیف جسٹس نے لکھایہ اصول فوجدار ی مقدمات میں اختیار نہیں کیاجاتا۔فوجداری مقدمات میں بار ثبوت استغاثہ پر ہوتاہے۔جس پر لازم ہوتاہے کہ وہ اپنے مقدمے کوکسی شک وشبے سے بالاتر ثابت کرے ۔اہم ترین گواہ محمدادریس نے تسلیم کیاکہ ان کے سامنے اپیل گزار اور گواہان میں جھگڑاہواتھا۔اور ملعونہ نے جملے کہے ۔آسیہ ملعونہ نے اجتماع میں اس کوتسلیم بھی کیامگر سپریم کورٹ کاکہناہے کہ ملزمہ دباؤمیں تھی اور دباؤکے تحت دیاگیابیان قابل اعتمادنہیں ہوتا۔آسیہ مسیح کو توہین عدالت کیس میں ذیلی عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائی گئی تھی ،جس کے خلاف ملزمہ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی تھی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 8 اکتوبر کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر آسیہ بی بی کسی اور کیس میں ملوث نہیں تو انہیں رہا کردیا جائے۔تفصیلی فیصلے کے ابتدائی پیروں میں عدالت نے قرآن و حدیث اور آئین پاکستان کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ مذہب اور پیغمبر اسلام کی توہین کی سزا موت یا عمر قید ہے۔یہ بات ثابت کرنے کے بعد عدالت نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ اس جرم کا غلط اور جھوٹا الزام بھی اکثر لگایا جاتا ہے۔ عدالت نے مشعال کیس اورایوب مسیح کیس کی مثالیں بھی د ی گئی ہیں اور بتایاگیاہے کہ پچھلے28 برس میں ایسے 62 افراد کو مقدمات کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا ،جن پر توہین مذہب یا پیغمبر اسلام کی توہین کا الزام لگایا گیا تھا۔عدالت نے اس بارے میں لکھا ہے ’کسی کو حضرت محمدَکی توہین کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ جرم کو سزا کے بغیر چھوڑا جا سکتا ہے ،لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے بعض اوقات کچھ مذموم مقاصد کے حصول کیلئے قانون کو انفرادی طور پر غلط طریقے سے استعمال کرتے ہوئے توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ حقائق کے مطابق 1990 سے سے تقریباً 62 افراد توہین رسالت کے الزام پر قانون کے مطابق مقدمے کی سماعت سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ یہاں تک کہ نامور شخصیات جنہوں نے اس امر کا اعادہ کیا کہ توہین رسالت کے قانون کا چند افراد کے ہاتھوں غلط استعمال ہو رہا ہے بھی خطرناک نتائج کا سامنا کر چکے ہیں۔ اس قانون کے غلط استعمال کی ایک حالیہ مثال مشعال خان کا قتل ہے جو مردا ن عبدالولی خان یونیورسٹی میں طالب علم تھا جس کو اپریل 2017 میں یو نیورسٹی کے احاطے میں مشتعل ہجوم نے صرف اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے کوئی توہین آمیز مواد آن لائن پوسٹ کیا۔چیف جسٹس نے اپنے فیصلے کے آخر میں لکھاکہ جوشخص کوئی کلیم (دعویٰ )کرتاہے اس کوثابت کرنابھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔تمام کارروائی میں ارتکاب جرم کوکسی شک وشبہے سے بالاترثابت کرنااستغاثہ کی ذمہ داری ہے ۔ منصفین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بھی کسی شک وشبے سے بالاتر ہوکرمقدمے کی سماعت کریں ۔قیاس بے گناہی فوجداری قوانین میں اہمیت رکھتاہے یہ ایک اصول ہے تودوسری جانب شک وشبے سے بالاتر ہوکرثابت کرنابھی اصول ہے یہ دونوں کڑیاں فوجداری مقدمات کے لیے ضروری ہیں ۔استغاثہ کی کہانی میں کوئی بھی جھول ہوتواس کافائدہ ہمیشہ ملزم کوہی جاتاہے ۔شکایت گزار کے مابین عنادکی موجودگی میں عام طورپر بے گناہ یابے گناہی کوثابت کرنے کے لیے اعلیٰ ترین معیارکے ثبوتوں اور شواہد کی ضرورت ہوتی ہے ۔اگراستغاثہ کے گواہان ملزم کے لیے عنادرکھتے ہوں تووہ شک کے فائدے کے اصول کی بناء پربریت کاحقدار ہوتاہے۔بدھ کے روزسنائے گئے فیصلے کی صرف تین لائنیں پڑھی گئیں اور باقی من وعن اردواور انگریزی میں سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ڈال دیاگیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ ،اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کافیصلہ سناناتھااور اسی طرح کی کاز لسٹ (سپلیمنٹری )بھی ایک رات قبل جاری کی گئی ،تاہم جب فیصلہ سنایاگیاتواس فیصلے کے وقت جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ موجودنہیں تھے صرف چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں روٹین کے مقدمات سننے کے لیے جوبنچ قائم کیاگیاتھااسی نے ملعونہ کیس کافیصلہ بھی سنادیا۔ قبل ازیں کمرہ عدالت میں جانے کیلئےوکلاء سے بھی ان کے کارڈزچیک کیے گئے ، وکلاء کے منشیوں اور دیگرعملے کوبھی روکاگیا،مدعی مقدمہ کے وکیل چوہدری غلام مصطفی ایڈووکیٹ کے ساتھ معاون وکیل شہزادایڈووکیٹ سمیت گنتی کے چندوکلاء کوکمرہ عدالت میں جانے کی اجازت دی گئی ۔

Comments (0)
Add Comment