تحقیقاتی ٹیموں نے شواہد جمع کر لئے۔ 2ملازم زیرحراست

اسلام آباد(رپورٹنگ ٹیم)صوبائی حکومت نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے قتل کی تفتیش کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں، جنہوں نے موقعے پر پہنچ کر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور مولانا کے دو ملازمین کوشامل تفتیش کرتے ہوئے تحویل میں لے لیا ہے۔ فارنسک ٹیم نے بھی فنگر پرنٹس سمیت دیگر شواہد اکٹھے کرلئے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ واقعے کی تفتیش مختلف پہلوئوں سے کی جائے گی جبکہ قتل میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونابھی خارج از امکان نہیں ۔ ذرائع کے مطابق پنجاب پولیس کی جانب سے مولانا کے قتل کے فوراً بعد تفتیش کے لیے مختلف ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔‏فرانزک لیب ماہرین اورپولیس کےتفتیشی افسران نے مولانا کی رہائشگاہ پر پہنچ کر شواہد اکٹھےکرلیےہیں اور‏مولاناسمیع الحق کے زیراستعمال اورکمرےکی چیزوں پر موجودفنگرپرنٹس بھی حاصل کر لیے گئے ہیں۔ذرائع کے مطابق ہاؤسنگ سوسائٹی کےریکارڈ روم سے واقعے کے وقت کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کر لی گئی ہے۔پولیس ذرائع کے مطابق مولانا سمیع الحق کے گن مین اور ڈرائیور واقعے کے وقت گھر میں موجود نہ تھے حالانکہ عموماًدونوں اکٹھے گھر سے باہر نہیں جاتے تھے۔ دونوں کا کہنا ہے کہ جب وہ واپس آئے تو مولانا کو خون میں لت پت پایا۔پولیس ذرائع کے مطابق واقعے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے حوالے سے بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں کیوں کہ مولانا کو افغانستان سے متعدد بار دھمکیاں موصول ہو چکی ہیں۔اکوڑہ خٹک مدرسے کے مہتمم ہونے کے ناطے اہم رہنمائوں سمیت افغان طالبان کی بڑی تعداد مولانا کو اپنا استاد کہتی اور ان کا احترام کرتی تھی،تاہم یہ بات امریکی کٹھ پتلی افغان حکومت اور سکیورٹی اداروں کوہضم نہیں ہوتی تھی۔ پولیس ذرائع کے کہنا ہے کہ حملے کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملہ آور مولانا کے گھر سے واقف تھا اور اس سے قبل بھی ان کے گھر آتا جاتا رہا ہے۔مولانا پر حملے کے لیے ان کے گھر کا انتخاب کرنا،حملہ آور کا گھر میں ایسے وقت داخل ہونا کہ جب ان کے ملازمین گھر میں موجود نہیں تھے اور کارروائی کر کے نکل جانا ظاہر کرتا ہے کہ یاتو حملہ آورمولانا کے گھرکے واقف حال تھایااس نے حملے کے لیے مکمل ریکی کر رکھی تھی۔ذرائع کے مطابق یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حملہ آور اکیلا نہیں تھابلکہ اس کے ساتھ مزید لوگ بھی موجود تھے۔

Comments (0)
Add Comment