مولاناسمیع الحق قاتلانہ حملہ میں شہید

راولپنڈی/پشاور(نمائندہ امت/محمدقاسم)دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم، جمعیت علما اسلام (س) کے امیر اور دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولاناسمیع الحق راولپنڈی میں قاتلانہ حملہ میں شہید ہوگئے۔ وہ جمعہ کو ہی نوشہرہ سے پہنچے تھے اور گھر میں آرام کر رہے تھے۔حملہ آوروں نے کمرے میں گھس کر تیز دھار آلے سے وار کئے۔ سانحہ عصر اورمغرب کے درمیان پیش آیا۔مولانا سمیع الحق کےڈرائیورومحافظ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے ،جب وہ واپس آئے تو خون میں لت پت دیکھا۔انہیں اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ترجمان جامعہ حقانیہ نے فائرنگ کی تردید کی ہے۔شہادت کی اطلاع پراسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ شہید کی نماز جنازہ آج اکوڑہ خٹک میں ادا کی جائے گی۔مولانا سمیع الحق کی شہادت میں امریکہ اور افغان خفیہ ایجنسی ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے ،کیونکہ انہوں نے طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات میں کردار ادا کرنے سے انکارکردیاتھا۔ تفصیلات کے مطابق جمعیت علما اسلام (س) کے امیر مولانا سمیع الحق جمعہ کو راولپنڈی میں قاتلانہ حملہ میں شہید ہوگئے۔ وہ گزشتہ روزہی نوشہرہ سے پہنچے تھے۔ مولانا سمیع الحق کے قریبی ساتھی مولانا احمد شاہ کے مطابق مولانا سمیع الحق نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع اپنے گھر میں آرام کر رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے کمرے میں گھس کر ان پر تیز دھار آلے سے حملہ کر دیا ۔مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق نے بتایا کہ سانحہ عصر اور مغرب کے درمیان پیش آیا ۔اس وقت ان کے ڈرائیورو محافظ مولانا احمد حقانی کچھ دیر کے لیے باہر گئے ہوئے تھےاور جب واپس آئے تو مولانا اپنے بستر پر خون میں لت پت پڑے تھے۔ انہیں شدید زخمی حالت میں نجی اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ دم توڑ گئے۔ مولانا حامد الحق کے مطابق ان کے والد پر چاقو سے وار کئے گئے۔اسپتال انتطامیہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ مولانا کے سر اور چھاتی پر چھریوں کے گہرے زخم آئے ہیں ۔پولیس ذرائع کاکہناہے کہ مولانا سمیع الحق کے جسم اورچہرے پر چاقو کے کئی نشانات موجود تھے۔تفتیشی ٹیم نے ملازمین کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ شروع کردی ہے۔ پولیس کا شبہ ہے کہ مولانا سمیع الحق پر حملہ کرنے والے پہلے بھی ان سے ملنے آتے رہے ہوں گے، جس کے باعث ان کا ملازم اور گن میں پر سکون ہو کر باہر نکل گئے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا سمیع الحق حملے کے وقت گھر میں اکیلے تھے ۔حملہ آوروں نے پہلے پانی بھی پیا جس کے خالی گلاس موقع پر موجود پائے گئے۔ پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ مولانا سمیع الحق کی میت کو ڈی ایچ کیو اسپتال راولپنڈی منتقل کر دیا گیا۔ جہاں اطراف کے علاقوں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی تھی ،جبکہ دا خلی و خا ر جی راستو ں سمیت جڑوا ں شہر و ں کی سیکو ر ٹی ہا ئی الر ٹ کر دی گئی۔جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک اور مولانا سمیع الحق کے ترجمان مولانا اسرار مدنی کا کہنا ہے کہ مولانا کے ساتھ عام گھریلو حالات میں ایک ہی ملازم ہوتا تھا ،جو ان کا پرسنل سیکریٹری بھی ہےاور دیگر خدمات بھی سرانجام دیتا تھا،وہ قریبی مارکیٹ میں مولانا کیلئے دودھ لینے گیا،جب واپس آیا تو دیکھا کہ مولانا خون میں لت پت پڑے تھے اور نامعلوم افراد گھر میں گھس کر ان کو چاقوؤں سے نشانہ بناکر فرار ہوچکے تھے،ابھی تک حملہ آوروں کی تعداد کا تعین نہیں کیاجاسکا،ترجمان نے بتایا کہ فائرنگ کی خبریں بےبنیاد ہیں، ہم شدت غم سے نڈھال ہیں،انہوں نے مولانا کے شاگردوں اور عقیدتمندوں کواس دکھ کی گھڑی میں صبر کی تلقین کی۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت کی اطلاع پر راولپنڈی، اسلام آباد سمیت مختلف شہر و ں میں احتجا ج شروع ہو گیا۔جے یوآئی کے کارکنان ڈی ایچ کیو اور آبپارہ چوک پر جمع ہو گئے اور شدید نعرے بازی کی۔ انہوں نے وفاقی اور پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مولانا کے قاتلوں کو فوراً گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ احتجاج کے باعث آبپارہ مارکیٹ اور شہری کی کئی دیگر مارکیٹیں فوری طور پر بند کر دی گئیں۔خیبر پختون کے مختلف شہروں پشاور،مردان،صوابی ،نوشہرہ،اکوڑہ خٹک،سوات ،دیر،بنوں،کرک میں بھی مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔ اطلاعات کے مطابق شہید مولانا سمیع الحق کی نماز جنازہ آج اکوڑہ خٹک میں ادا کی جائے گی۔ دریں اثنامولانا سمیع الحق کی شہادت میں امریکہ اور افغان خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے ،کیونکہ مولانا سمیع الحق نے طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات میں کردار ادا کرنے سے انکارکردیاتھا۔’’امت‘‘ کو مولاناسمیع الحق شہید کے ساتھ پچیس سال سے قریب رہنے والی جنوبی اضلاع کی شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایاکہ مولانا سمیع الحق کولاحق خطرات سے پارٹی آگاہ تھی اوراکوڑہ خٹک میں اس منصوبے پر عمل درآمد کرنا ممکن نہیں تھا ،کیونکہ ہر وقت پندرہ بیس شاگرد مولانا کے گرد حصار بناکر ان کی حفاظت کرتے تھے۔ ذرائع کے مطابق امریکی سی آئی اے اور این ڈی ایس کا اس واقعے میں ملوث ہوناخارج ازمکان نہیں ،کیونکہ افغانستان میں کچھ دوستوں نے اس حوالے سے پہلے بھی احتیاط کامشورہ دیاتھا اورمدرسے یا متصل رہائش گاہ آنے والوں پرکھڑی نظر رکھی جاتی تھی۔ سانحے میں بیرونی قوتوں کے ملوث ہونے کاامکان زیادہ ہے ،چاہے اس کیلئے مقامی افراد کی خدمات حاصل کی گئی ہوں ۔ دوسری جانب مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق نے کہا ہے کہ افغان حکومت اور مختلف طاقتوں کی جانب سے والد کو خطرہ تھا ،کیوں کہ والد صاحب افغانستان کو امریکہ کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا ہمیں ملکی خفیہ اداروں نے بھی کئی بار بتایا تھا کہ مولانا سمیع الحق بین الاقوامی خفیہ اداروں کے ہدف پر ہیں۔مولانا حامد الحق نے مزید کہا کہ ایسی قوتیں جو ملک میں اسلام کا غلبہ نہیں چاہتیں، جو جہاد مخالف ہیں، جو مدرسوں اور خانقاہوں کی مخالفت کرتے ہیں ،وہی طاقتیں اس قتل میں ملوث ہیں۔ میں اس موقع پر مولانا سمیع الحق کے چاہنے والے کارکنان اور عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور دشمن قوتوں کو تنقید کا موقع نہ دیں۔

Comments (0)
Add Comment