کراچی (رپورٹ: نواز بھٹو) غیرقانونی الاٹمنٹ چھپانے کیلئے کے ڈی اے نے جے آئی ٹی کوریکارڈ دینے سے انکار کردیا ہے ۔ادھر کراچی میں پلاٹوں اور ہزاروں ایکڑ زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کے ذریعے 2008 سے 2018 تک کے عرصے کے دوران جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ انکشاف اس وقت ہوا جب جے آئی ٹی کے فوکل پرسن ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اصغر خان کی طرف سے چیف سیکریٹری سندھ کو تحریری ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ کے ڈی اے کی طرف سے مکمل ڈیٹا کی فراہمی کے معاملے پر تعاون نہیں کیا جارہا ۔ مزید کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں متعدد مرتبہ کے ڈی اے حکام کو تفصیلی خطوط لکھے جا چکے ہیں ، لیکن کسی قسم کا تعاون نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی کے ڈی اے حکام لیٹر کا جواب دینا مناسب سمجھتے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی حکام کو مزید کچھ ایسے بے نامی بینک اکاؤنٹس ملے ہیں جن کے ذریعے اربوں روپے بیرون ممالک بھجوائے گئے ہیں ، جن کی تفتیش کی جا رہی ہے ۔ یہ رقم کراچی کی قیمتی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کے ذریعے حاصل کی گئی۔ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ غیر قانونی الاٹمنٹ کراچی کے ضلع ملیر میں کی گئی جن میں بڑے رہائشی منصوبے، جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیوں، گوٹھ آباد اسکیم ، زرعی زمین کو رہائشی اور کمرشل میں تبدیل کرنے اور ملیر ندی کے اندر اور اس کے اطراف میں کی گئی۔ ذرائع کے مطابق زمین کی اس غیر قانونی الاٹمنٹ میں سندھ کی حکمراں جماعت پی پی پی کی اہم شخصیات ملوث ہیں جس کا انکشاف پہلے رینجرز کی ایک رپورٹ میں کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ رقم پہلے دبئی پہنچتی ہے جہاں سے تین حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد مختلف ممالک بھجوائی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق رینجرز کی اس رپورٹ کو بھی تحقیقات میں اہم دستاویزات کے طور پر شامل کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب جے آئی ٹی کی طرف سے لیٹر موصول ہونے کے بعد چیف سیکریٹری نے سیکریٹری بلدیات کو ہدایات جاری کیں۔ سیکریٹری بلدیات نے اس سلسلے میں کے ڈی اے حکام کو سختی سے ریکارڈ فراہم کرنے کے لئے کہا گیا۔ ذرائع کے مطابق چیف سیکریٹری کی طرف دونوں متعلقہ محکموں کے سیکریٹریز کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ آج پیر کے روز تک جے آئی ٹی حکام کو مطلوب تمام منصوبوں اور ٹھیکوں کا ریکارڈ فراہم کر دیا جائے۔