لاہور(امت نیوز/مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستانی سائنسدانوں نے مقامی سطح پر بیالوجیکل مصنوعی جلد تیار کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے پیوند کی قیمت ایک ہزار روپے سے بھی کم ہے ،مصنوعی جلد تیار کرنے والے ڈاکٹروں کا دعویٰ ہے کہ بیالوجیکل جلد قدرتی جلد کے قریب ترین ہے ۔بی بی سی کے مطابق لاہور میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر جاوید اکرم کے مطابق جھلس جانے والے زیادہ تر افراد میں اموات انفیکشن اور جسم سے پانی اور نمکیات کے تیزی سے اخراج وغیرہ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قدرتی جلد کے جل جانے کے بعد اس کے نیچے کے اعضا جراثیم کے لیے افشا ہو جاتے ہیں۔ انفیکشن کو روکنے کے لیے انسانی جلد کے اس بیالوجیکل نعم البدل کی پیوندکاری ایسے مریض کی زندگی بچانے کے لیے انتہائی موزوں ذریعہ ہے۔ اس طریقے سے انفیکشن اور اہم سیال کے ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔تاہم پاکستان میں اب تک اے سیلولر ڈرمل میٹرکس یا انسانی جلد کا بائیولوجیکل نعم البدل تیار نہیں کیا جا رہا تھا اور اسے درآمد کرنا پڑتا تھا۔ درآمد شدہ جلد کا نعم البدل انتہائی مہنگا ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں کی پہنچ سے باہر تھا۔انہوں نے بتایا کہ تقریباً ایک مربع انچ درآمد شدہ بیالوجیکل مصنوعی جلد کے پیوند کی قیمت لگ بھگ 900امریکی ڈالر (تقریباً ایک لاکھ پاکستانی روپے) سے زیادہ پڑتی ہے۔لیکن اب چند پاکستانی ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے مقامی سطح پر بیالوجیکل مصنوعی جلد تیار کر لی ہے۔ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق مقامی طور پر تیار کی جانے والی جلد کے پیوند کی قیمت ایک ہزار پاکستانی روپے سے کم ہے۔لاہور کے جناح اسپتال کے برن سنٹر میں قائم ایک لیبارٹری میں ڈاکٹر رؤف احمد ان دنوں مصنوعی جلد کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے مائیکرو بیالوجی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جلد کے دو اقسام کے مصنوعی نعم البدل ہو سکتے ہیں۔ ایک بیالوجیکل یا حیاتیاتی اور دوسرا سینتھیٹک یعنی کیمیاوی ترکیب سے بنائی گئی۔ سِنتھیٹیک جلد کا نقصان یہ ہے کہ ایک تو اس کا انسانی خلیوں کے ساتھ جڑنا مشکل ہوتا ہے، دوسرا اس کی ہیت کو زیادہ لمبے عرصے تک قائم رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ لگ جانے کے بعد اس کے خراب ہونے کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔جلد کا جو نعم البدل ڈاکٹر رؤف نے تیار کیا ہے ،وہ بیالوجیکل جلد ہے۔ یہ قدرتی جلد کے قریب ترین ہوتا ہے یعنی تقریباً قدرتی جلد جیسا ہی ہوتا ہے۔مصنوعی جلد سرجری کے دوران بچ جانے والی اضافی انسانی جلد یا پھر گائے یا بھینس کی جلد سے بھی تیار کی جا سکتی ہے۔ڈاکٹر رؤف کے مطابق پہلے مرحلے میں مختلف کیمیکلز کی مدد سے جلد کے اوپری حصے سے تہہ ہٹائی جاتی ہے یعنی تکنیکی اصطلاح میں اسے ڈی ایپی ڈرملائز کیا جاتا ہے۔ اگلے مرحلے میں اسے ڈی سیلولیرائز کیا جاتا ہے۔ ہم نے ابتدائی طور پر اسے تقریباً 18مریضوں پر کامیابی سے استعمال کیا ہے۔اگلے مرحلے میں اسے پہلے جانوروں اور پھر بڑے پیمانے پر انسانوں پر آزمایا جائے گا۔ اس کے بعد یہ کاروباری سطح پر تیار کیے جانے کے لیے دستیاب ہو گی۔ یو ایچ ایس کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ انہوں نے جینیاتی امراض پر تحقیق کی غرض سے ملک کی مختلف لیبارٹریوں پر مشتمل ایک شراکت قائم کر رکھی ہے۔ اس طرح ہمیں مختلف لیبارٹریوں میں موجود مشینیں استعمال کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ڈاکٹر رؤف نے کہا کہ پاکستان کے لحاظ سے میں نے کوشش کی کہ ایسے کیمیکلز استعمال کیے جائیں جو کام بھی وہی دیں اور مہنگے بھی نہ ہوں۔ وہ مصنوعی بیالوجیکل جلد کا ایک پیوند آٹھ دن میں تیار کر پاتے ہیں۔ پاکستان میں ہمارے پاس بلڈ بینکس کی طرح جلد کا بینک نہیں ہے ،ورنہ ہم زیادہ جلدیں تیار کر سکتے ہیں۔چھوٹے پیمانے پر تیار ہونے والی جلد برن سنٹر کی حد تک تو استعمال میں لائی جا سکتی ہے ،مگر کاروباری بنیاد پر نہیں۔