ڈیپ سی پالیسی کیخلاف ماہی گیروں نے احتجاجاََ لانچیں کھڑی کر دیں

کراچی(اسٹاف رپورٹر)نئی ڈیپ سی پالیسی اور پکڑ دھکڑکے خلاف ماہی گیروں نے لانچیں احتجاجاً کراچی فش ہاربرپرکھڑی کردیں۔ماہی گیروں کی ہڑتال کے باعث فش ہاربر چینل بلا ک ہوگیا جس کے باعث اربوں کا زرمبادلہ اور لاکھوں افراد بیروزگار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔ماہی گیروں کے12ناٹیکل میل سے آگے سمندر میں جانے پر پابندی اور نئی ڈیپ سی پالیسی فی الفور واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے نئی ڈیپ سی پالیسی کے نفاذ کے بعد سمندری حدود کی خلاف ورزی کا الزام لگاکر کشتیوں اور ماہی گیروں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی گئی ہے۔ ماہی گیروں نے 12ناٹیکل میل سے آگے سمندر میں پر پابندی کیخلاف شکار پر جانے سے احتجاجاً انکار کر دیا اور کراچی فش ہاربر پر لانچیں کھڑی کر دی ہیں۔بڑی تعداد میں لانچیں کھڑی ہونے کے باعث کراچی فش ہاربر کا چینل تقریباً بلاک ہو گیا ہے۔ماہی گیروں اور سی فوڈ سے تعلق رکھنے والے فیکٹری مالکان و ملازمین کے احتجاج کے باعث کراچی فش ہاربر کی صورت حال بہت گھمبیر ہوتی جا رہی ہے ۔اس سلسلے میں چیئرمین فشر مینز کوآپریٹو سو سائٹی عبدالبر کا کہنا ہے کہ نئی ڈیپ سی پالیسی کے نفاذ سے ماہی گیر مشکلات سے دوچار ہیں اور نئی پابندیوں کی وجہ سے کراچی فش ہاربر پر سی فوڈ کی آمد نہ ہونے کے برابر ہو گئی ۔ جب کہ ماہی گیروں اور سی فوڈ انڈسٹری سے وابستہ لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، وہیں فشر مینز کوآپریٹیو سوسائٹی بھی مالی بحران کا شکار ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔چیئرمین فشر مینز کوآپریٹو سوسائٹی عبدالبر نے وفاقی حکومت اور وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ علی زیدی سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نئی ڈیپ سی پالیسی کو فی الفور واپس لے کر ماہی گیروں اور سی فوڈ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہونے سے بچائیں۔انہوں نے کہا کہ انہی ماہی گیروں کی وجہ سے اربوں روپے کا زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ نئی ڈیپ سی پالیسی کے نفاذ کے بعد سے سی فوڈ کی ایکسپورٹ ختم ہو کر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو اربوں روپے کے زرمبادلہ کا نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔چیئرمین ایف سی ایس عبدالبر نے کہا کہ وفاقی حکومت مذکورہ نئی ڈیپ سی پالیسی کو فی الفور ختم کرے اور نئی ڈیپ سی پالیسی بناتے وقت سی فوڈ انڈسٹری سے منسلک تمام اسٹک ہولڈرز کو مشاورت میں شامل کیا جانا چاہیے۔

Comments (0)
Add Comment