ماسکو کانفرنس میں طالبان کو عالمی فورم ملنے سے امریکہ پریشان

پشاور(رپورٹ:محمد قاسم/ مانیٹرنگ ڈیسک)ماسکو کانفرنس میں طالبان کوعالمی فورم ملنے سےامریکہ پریشان ہو گیا۔اتحادی بھارت کے ہمراہ صرف بطور مبصر شرکت کی۔افغان طالبان کےقطر دفتر کے وفد نے واشنگٹن سے مذاکرات کیلئے شرائط پیش کر دیں ،جن میں انخلا کو بنیاد بنایا گیا ہے۔واشنگٹن کوافغانستان میں روس کا بڑھتا ہوااثر و رسوخ کھٹکنے لگا۔زلمے خلیل زاد کوخطے کے ہنگامی دورے پر بھیج دیا۔تفصیلات کےمطابق روس کی میزبانی میں افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کےلئے کانفرنس جمعہ کو ماسکو میں ہوئی،جس میں پاکستان،چین ،ایران ،ازبکستان سمیت 12 ممالک کے وفود کے علاوہ افغان طالبان کے قطر دفتر کا وفد بھی شریک ہوا،طالبان کے 5 رکنی وفد میں الحاج محمد عباس ستانکزئی، مولوی عبدالسلام حنفی، شیخ الحدیث مولوی شہاب الدین دلاور، مولوی ضیا الرحمن مدنی اور الحاج محمد سہیل شاہین شامل تھے۔سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان کے 3 رکنی وفد کی سربراہی دفتر خارجہ میں ایڈیشنل سیکریٹری برائے افغانستان محمد اعجاز نے کی ،افغانستان کی امن کونسل کے ڈپٹی چیئرمین حاجی دین محمد کی سربراہی میں 4رکنی وفد کانفرنس میں شرکت کیلئے پہنچا۔تاہم جمعہ کے روز ایک بیان میں افغان دفتر خارجہ نے وضاحت کی کہ حکومت نے ماسکو اجلاس میں شرکت کے لیے کوئی نمائندہ نہیں بھیجا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اعلیٰ امن کونسل‘ بحیثیت شہری، لیکن غیر سرکاری ادارے کے طور پر، اجلاس میں شریک ہے۔افغان امن عمل سے متعلق ہونے والے مذ اکرات میں پہلی بار بھارت کا غیرسرکاری وفد بھی شریک ہوا، کانفرنس کا آغاز روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کی تقریر سے ہوا، جن کا کہنا تھا کہ روس افغانستان میں امن کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا اور امید ہے کہ ماسکو اجلاس میں افغانستان امن عمل سے متعلق سنجیدہ اور تعمیراتی بات چیت ہوگی۔روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ مذاکرات میں دونوں فریقین (حکومت اور طالبان) کی موجودگی براہ راست مذاکرات کے لیے کارآمد ہوگی۔ذرائع کے مطابق طالبان نے کانفرنس کے شرکا کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا ہےکہ کانفرنس میں شریک نمائندے افغانستان میں غیرملکی قبضے کے حوالے سے اپنا موقف واضح کریں، طالبان اس بات کی ضمانت دینے کو تیار ہیں کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی،امریکہ کو انخلا کے لئے ٹائم ٹیبل دینا ہوگا ،اس کے بدلے امریکہ کو انخلا کے لئے محفوظ راستہ دیا جاسکتا ہے ۔اس حوالے سے پڑوسی ممالک مل کر یہ ضمانت دے سکتے ہیں،طالبان نے اپنے خلاف عائد امریکی پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ امن کے لئے اعتماد سازی کے اقدامات کئے جائیں۔افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے طالبان وفد کا کہنا تھا کہ موجودہ لڑائی افغان گروپوں کے درمیان نہیں ،بلکہ یہ غیرملکی قبضے کے خلاف جدوجہد ہے ،اس لئے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات بے کار ہوں گے۔طالبان نے واضح کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔واضح رہے کہ کانفرنس کے آغاز سے قبل طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مغربی میڈیا کو بتایا تھا کہ کانفرنس میں شرکت اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ طالبان سیاسی میدان کو کھلا نہیں چھوڑنا چاہتے۔امریکی ریڈیو کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ حکومتِ افغانستان نے ماسکو میں منعقدہ اجلاس سے اپنے آپ کو دور رکھا ہے، جہاں طالبان وفد پہلی بار کسی بین الاقوامی فورم پر نظر آیا۔گفت و شنید کا مشاہدہ کرنے کے لیے ماسکو میں امریکی سفارت خانے نے اپنا نمائندہ بھیجا تھا۔امریکی اخبار کے مطابق کانفرنس کے دوران بظاہر کوئی بریک تھرو سامنے نہیں آیا۔شرکا نے کانفرنس کے انعقاد کو ہی کامیابی قرار دیتے ہوئے مستقبل میں ایک اور بیٹھک کرنے پر اتفاق کیا ہے ،تاہم اس کی تاریخ طے نہیں کی گئی۔دوسری جانب امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد ایک بار پھر افغانستان کے مسئلے کے حل کیلئے پاکستان،افغانستان،سعودی عرب،قطر اور امارات کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں اور اس دوران قطر میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بڑی پیش رفت کا امکان ہے ،کیونکہ زلمے خلیل زاد نے مڈ ٹرم الیکشن کے بعد انخلا کے لئے ٹائم ٹیبل دینے پر بات چیت کے لئے رضا مندی ظاہر کی تھی ۔

پشاور(نمائندہ خصوصی)طالبان نے افغانستان کے شمالی صوبہ فاریاب میں محصور ہونے والےافغان فوجی اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے کے لئے آج کی ڈیڈ لائن دے دی ہے اور صوبائی دارالحکومت کی طرف پیش قدمی بھی شروع کردی ہے، طالبان نے امریکی یونیورسٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ رپورٹ میں افغان جنگ میں ایک لاکھ 47ہزار شہریوں کی شہادتوں کا ذکر کیا گیاہے ،لیکن یہ تعداد 5 لاکھ سے زائد ہے اور ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 7 ہزار سے زائد ہے۔تفصیلات کے مطابق طالبان نے فراہ کے بعد افغانستان کے شمالی صوبہ فاریاب کا محاصرہ کرلیا ہے اور دارالحکومت کی جانب پیش قدمی شروع کر دی ہے ۔افغان حکومت نے دارالحکومت میمنہ کو بچانے کے لئے مزید دستے روانہ کر دیئے ہیں ۔طالبان نے پشتون کوٹ ضلع پر قبضہ کر کے 300 سے زائد فوجیوں کو محاصرے میں لیا ہوا ہے ،جبکہ شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والے سیکڑو ںجنگجو بھی محاصرے میں آگئے ہیں ۔پشتون کوٹ اور سرحوض کے علاقوں میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔طالبان نے فوجیوں کو رسد کا راستہ کاٹ دیا ہے ،جس سے 3 دن سے سرکاری فوجیوں کو ادویات اور کھانے کی قلت کا سامنا ہے ۔محاصرہ میں آنے والوں کی تعداد 800 کے قریب بتائی جاتی ہے ۔ذرائع نے بتایا کہ پشتون کوٹ کے 80فیصد علاقے پر طالبان قابض ہو گئے ہیں اور سرکاری اہلکاروں نے حکومت سے مدد کی اپیل کی ہے ،جبکہ سر حوض ضلع پر بھی طالبان نے دباؤ بڑھا کر اس کا راستہ کاٹ دیا ہے ۔طالبا ن مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں اور محاصر ے میں آنے والے فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کا کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ ہتھیار ڈال دیں گے تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا ۔ہتھیار نہ ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ذرائع نے ’’امت ‘‘کو بتایا کہ طالبان نے محاصرے میں آنے والے افراد سے کہا ہے کہ وہ ہتھیار ڈا ل دیں انہیں محفوظ راستہ دیا جائے گا ،جبکہ افغان فوج کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ان کے پا س کھانا اور ادویات ختم ہو رہی ہے اور اگر ہفتے کی صبح تک انہیں مدد نہ پہنچی تو وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔دوسری جانب افغان طالبان نے امریکی یونیورسٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ رپورٹ میں افغان جنگ کے دوران ایک لاکھ 47ہزار شہریوں کی شہادتوں کا ذکر کیا گیا ہے ،لیکن یہ تعداد 5 لاکھ سے زائد ہے،جبکہ امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد بھی 7 ہزار سے زائد ہے ۔امریکہ اپنی قوم کو دھوکے میں رکھ رہا ہے ۔افغانستان میں اگر جنگ بندی ہو گئی تو غیر جانبدار گروپوں کی جانب سے تحقیقات سے اموات کے درست اعدادوشمار سامنے آئیں گے ۔یاد رہے کہ ایک امریکی یونیورسٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہےکہ اکتوبر 2001 سے نومبر 2018 تک افغانستان میں ایک لاکھ 47ہزار افراد جنگ کے دوران مارے گئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان،پاکستان اور افغانستان میں مارے گئے شہریوں کی تعداد5لاکھ 7 ہزار ہے ،جبکہ افغانستان اور عراق میں ہلاک ہونے والے امریکی ونیٹو فوجیوں کی تعداد 6ہزار ہے،جس کے جواب میں جاری بیان میں طالبان کا کہنا ہے کہ صرف افغانستان میں 5لاکھ سے زائد شہری جاں بحق،7ہزار امریکی اور30ہزار افغان فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment