گنا کاشتکاروں کو اربوں کے واجبات دلانے میں حکومت ناکام

حیدر آباد (بیورو رپورٹ)سندھ حکومت ابھی تک گنے کی امدادی قیمت مقرر کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ صرف ایک شوگر مل نے اب تک کرشنگ شروع کی ہے ۔ لاکھوں ایکڑ تیار گنا سوکھ رہا ہے اور کٹائی میں تاخیر سے کئی لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم کی فصل کی کاشت متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ شوگر ملیوں سے اربوں روپے کے بقایاجات بھی کاشتکاروں کو ادا کرانے میں حکومت ناکام رہی، جس سے زرعی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور لاکھوں کاشتکار سخت پریشان ہیں۔ شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ کے مطابق ستمبر میں شوگر کین بورڈ کے اجلاس میں گنے کی قیمت کا تعین ہو جانا چاہیے اور اکتوبر کے پہلے ہفتے میں تمام شوگر ملوں کو چمنیاں جلانی چاہئیں جبکہ زیادہ سے زیادہ گنے کی پیڑائی کا 10 اکتوبر تک آغاز ہو جانا چاہیے ،لیکن پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت مل مالکان کے دباؤ پر گزشتہ ایک عشرے سے قانون کے مطابق نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں کر رہی، وسط نومبر کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا رہا ہے اور ہر سال زیادہ ملیں دسمبر میں کرشنگ شروع کرتی ہیں۔ اب تک بھی وزارت زراعت سندھ نے شوگرملوں، کاشتکاروں اور محکمہ زراعت کے نمائندوں پر مشتمل شوگر کین بورڈ کا باقاعدہ اجلاس طلب کر کے گنے کی قیمت اور کرشنگ کی تاریخ طے نہیں کی جس پر صوبے بھر میں کاشتکار احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ تقریبا 7 لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑا گنا سوکھ رہا ہے ۔ اس کو بچانے کے لئے نہری پانی بھی دستیاب نہیں ہے جبکہ بر وقت گنے کی کٹائی نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ پر گندم کی کاشت میں تاخیر ہو گی یا بالکل کاشت نہیں ہو سکے گی ،وفاقی حکومت نے 15نومبر سے ملیں چلانے کا اعلان کیا تھا لیکن پاسما نے اسے تسلیم نہیں کیا اور سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرنے پر عدالت عالیہ نے گنے کی قیمت کا تعین کر کے 30 نومبر تک ملیں چلانے کا حکم دیا ہے، کاشتکار نمائندوں کے مطابق اس سال گنے کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں30 فیصد کم رہنے کا امکان ہے۔ ہر سال گنے کا زیرکاشت رقبہ بھی کم ہو رہا ہے ، کیونکہ شوگر مل مالکان کی ہٹ دھرمی اور سندھ حکومت کے پاسما کی طرف داری کرنے کی وجہ سے ہر سال گنے کے کاشتکاروں کو اربوں روپے کا مالی نقصان ہو رہا ہے ۔ اس لئے کاشتکار اب دیگر فصلوں کی کاشت کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ مل مالکان گنے کی قیمت کی مد میں کاشتکاروں کے اربوں دوپے ادا نہیں کر رہے۔ گزشتہ سال بہت تاخیر سے سندھ حکومت نے گنے کی 182 روپے فی 40 کلوگرام کی قیمت کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھالیکن پاسما نے 130 روپے سے زیادہ نرخ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ملیں بند کر دی تھیں ،طویل سماعتوں کے بعد آخر سندھ ہائیکورٹ نے فیصلہ صادر کیا تھا کہ شوگر ملیں 160روپے فی 40 کلو گرام کی قیمت بروقت ادا کریں جبکہ فی من 12روپے سندھ حکومت دے مگر زیادہ تر شوگر ملوں نے اس پر عمل نہیں کیا اور کاشتکاروں کے اربوں روپے ہڑپ کئے ہوئے ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ دھندہ اومنی گروپ کی شوگر ملیں گنے کے کوالٹی پریمیم کی مد بھی کاشتکاروں کی 40 ارب سے زائد کی رقم ادا کرنے کے لئے تیار نہیں، حکومت نے پاسما کے دباؤ پر کوالٹی پریمیم ایک روپے سے کم کر کے 50 پیسے کر دیا تھا ،مگر مل مالکان نے وہ بھی ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا ، جس پر سندھ آباد گار بورڈ نے کاشتکاروں کے حق کے لئے سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی۔ عدالت عالیہ نے 2003میں کاشتکاروں کے حق میں فیصلہ دیا تھا جسے پاسما نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے چند ماہ پہلے پاسما کی اپیل مسترد کرتے ہوے پریمیم ادا کرنے کا حکم دیا ہے لیکن شوگر ملیں یہ رقم ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس بار اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید سپریم کورٹ میں زیرسماعت مقدمات کے تحت ایف ائی اے کے مہمان ہیں۔ ماضی کی طرح شوگر ملیں من مانے طور پر تاخیر سے چلانے اور گنے کی کم قیمت ادا کرنے کے لئے ان کا ماضی کی طرح دباؤ نہیں ہے ۔ لیکن پھر بھی ملیں اب تک نہیں چلیں اور امکان ہے کہ زیادہ تر روایتی طور پر دسمبر میں ہی چلیں گی، اومنی گروپ کے اکاؤنٹس سپریم کورٹ نے منجمد کر رکھے ہیں اور ملوں کے انتظامی افسران بھی بینکوں میں اومنی گروپ کی طرف سے گروی رکھی گئی ۔ 13ارب روپے مالیت کی چینی ملوں سے غائب ہونے کے اسکینڈل میں عدالتوں پیش ہو رہے ہیں ۔ اس لئے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اومنی گروپ کی 19میں سے کتنی ملیں کرشنگ شروع کر سکیں گی، معلوم ہوا ہے کہ غائب ہونے والی چینی پر 15فیصد سیلز ٹیکس بھی ادا نہیں کیا گیا ہے۔

Comments (0)
Add Comment