کراچی( بزنس رپورٹر)کراچی میں بلند عمارتوں کی تعمیرات پر پابندی کے منفی اثرات ذیلی صنعتوں پر پڑنے لگے ہیں۔ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد ) کے چیئرمین محمد حسن بخشی نے کہا ہے کہ کراچی میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیرات پر پابندی کے باعث سندھ اور بلوچستان کی70اسٹیل ری رولنگ ملز بند ہوچکی ہیں ، جس کے نتیجے میں مذکورہ ملوں کے25ہزار ملازمین بے روزگار ہوگئے۔سیمنٹ، ٹائلز اور دیگر صنعتیں بھی بحران سے دوچار ہیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں پانی کی کمی سے متعلق واٹر بورڈ کی سپریم کورٹ میں غلط رپورٹ پر سپریم کورٹ نے بلند عمارتوں کی تعمیرات پر پا بندی لگادی تھی۔اس پابندی کو 19ماہ گزر چکے ہیں، لیکن سندھ حکومت نے پانی کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے تاحال کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے گرائونڈ پلس 6تک کی عمارتوں کی تعمیرات کی اجازت دی ہے، لیکن کئی ماہ گزرگئے تاحال ایک بلڈنگ کا بھی نقشہ پاس نہیں ہوسکام کیوں کہ واٹر کمیشن نے گرائونڈ پلس 6عمارتوں کی منظوری کے لیے ایس بی سی اے کو احکام جاری کیے ہیں کہ گیس ، بجلی اور واٹر بورڈ کی جانب سے این او سی جاری ہونے پر ہی منظوری دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ گیس اور بجلی کے اداروں نے تو این او سی جاری کردی، لیکن واٹر بورڈ کی جانب سے این او سی نہ ملنے سے تعمیرات کی اجازت ہونے کے باوجود ایک پروجیکٹ کی بھی منظوری نہیں ہوسکی۔تعمیراتی سرگرمیاں ختم ہونے کے باعث شہر میں 600ارب روپے کی سرمایہ کاری رک گئی ۔آرکیٹیکٹس ،انجینئرز سمیت لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔بلڈرز اور ڈیولپرز کا مرتب کردہ سرمایہ کاری کا پلان درہم برہم ہوکر رہ گیا۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے پانی کا مسئلہ فوری حل نہ کیا، تو تعمیراتی کام ٹھپ ہونے سے مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان آجائے گا۔شہریوں میں احساس محرومی پیدا ہونے سے بدامنی پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے۔