کراچی(اسٹاف رپورٹر) سی ٹی ڈی نے 4 روزہ سے لاپتہ سینئر صحافی اور کراچی پریس کلب رکن نصراللہ چوہدری کو سندھ ہائیکورٹ میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کردیا۔ منتظم جج نے 14 دن کے ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ تفتیشی افسر عدالت کو مطمئن نہیں کرسکا ہے ۔عدالت نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ صحافی کو 14نومبر کو پیشرفت رپورٹ کے ساتھ پیش کریں۔ پیر کو انسداد دہشت گردی کی منتظم عدالت میں سینئر صحافی نصراللہ چوہدری کو پیش کرنے کے موقع پر جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے استفسار کیا کہ کس الزام میں صحافی کو گرفتار کرلیا ہے، کیوں ریمانڈ چاہئے۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ سینئر صحافی نصراللہ خان کے خلاف مبینہ ممنوعہ لٹریچر برآمدگی کامقدمہ درج کیا گیا ہے، جس پر فاروق ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا کہ صحافی کا کام خبریں جمع کرنا اور لوگوں سے ملاقات کرنا ہے، صحافی پر مواد رکھنےاور ملاقات کرنے کا الزام مذاق کے مترادف ہے۔ میرے موکل کو 4روز قبل کراچی پریس کلب پر غیر قانونی کارروائی کے اگلے روز گھر سے گرفتار کیا گیا اور اب سی ٹی ڈی کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے۔ تفتیشی افسر جھوٹ بول رہا ہے، سنیئر صحافی کی گرفتاری پر بین الاقوامی اخبارات بھرے پڑے ہیں، جس میں اس غیر قانونی حراست پر آواز اٹھائی جو ریکارڈ پر موجود ہے، دوران سماعت حیدر امام رضوی ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا کہ گورنر ہاؤس پر احتجاج کے بدلے انسداد دہشت گردی کا مقدمہ درج کردیا گیا، ہم وکلا بھی اس احتجاج میں نصر اللہ خان کیساتھ شریک تھے۔ کراچی پریس کلب پر حملےکے خلاف احتجاج پر انہیں نشانہ بنایا گیا ہے۔ نصر اللہ انتہائی ایماندار اور شریف صحافی ہیں ، جس کی ہم وکلا بھی گواہی دیتے ہیں۔ سینئر صحافی کی گرفتاری اور فضول الزامات لگانے سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی ہورہی ہے ۔ اس کا ذمہ دار کسے قرار دیا جائے۔ کراچی پریس کلب پر حملے اور صحافی کی گرفتاری سے پاکستانی صحافت کی بدنامی ہورہی ہے۔ قبل ازیں اہلیہ نصراللہ خان نے دائر درخواست میں کہا کہ نصراللہ خان کو 4روز قبل رات گئے گھر سے سادہ وردی میں ملبوس اہلکار اٹھا کر لے گئے تھے اور انہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان کے شوہر کو کسی جھوٹے، بے بنیاد اور من گھڑت مقدمے میں ملوث کر دیا جائے گا۔دریں انثا سی ٹی ڈی پولیس کی جانب سے جاری اعلامیہ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ سینئر صحافی نصر اللہ چوہدری طالبان کا سہولت کار ہیں اور ان سے افواج پاکستان ،حکومت کے خلاف مواد اور عوام کوجہاد پر اکسانے والامواد برآمد ہوا ہے۔ سی ڈی ٹی نے یہ دعویٰ کیاہے کہ اس کے 2 اہلکار ان کا تعاقب کرتے ہو ئے 8نومبر کی شب کراچی پریس کلب میں داخل بھی ہوئے۔ دوسری طرف زمینی حقائق، واقعے کے عینی شاہدین اور خود پریس کلب پر مسلح افرادکی چڑھائی کے بعد پریس کلب کے عہدے داروں سے ملاقات کرنے والے اعلی پولیس افسران کے بیانات سی ٹی ڈی سے جاری اعلامیہ کو مشکوک اور حقائق کے برعکس قرار دے رہے ہیں۔ دوسر ی طرف باخبر ذرائع کے مطابق یہ کارروائی سی ٹی ڈی کی جانب سے کی ہی نہیں گئی ۔ اس بات کی تصدیق پیر کو عدالت میں پیشی کے دوران نصر اللہ چوہدری نے بھی کی، ان کے ساتھی نے سوال کیاتھاکہ ان کوگزشتہ 4روزسے کہاں رکھاگیاتھا، تو انہوں نے بتایا کہ پہلے کا تو ان کو نہیں پتا تھا ، تاہم ان کوگزشتہ شب سی ٹی ڈی کے حوالے کیاگیاہے، صحافتی حلقے پریس کلب پر حملے، نصر اللہ چوہدری کی گرفتاری اور ان پر لغو اور بے بنیاد الزامات کو ریاست کے چوتھے ستون کوکمزور کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔