کراچی(رپورٹ:محمد نعمان اشرف)بلدیہ عظمیٰ کراچی کے بعد کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے بھی حرکت میں آگیا۔انتظامیہ نے گزشتہ دنوں اطلاع دیئے بغیر ہی کورنگی روڈ پر قائم نرسری مالکان کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے ایک نرسری مسمار کردی،جبکہ 25 سے زائد نرسری مالکان کو جگہ خالی کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔نرسری مسماری کے خلاف مالکان نے احتجاج کرتے ہوئے متبادل اراضی کا مطالبہ کیا، جس پر انتظامیہ نے آپریشن معطل کردیا۔سیزن قریب ہونے پر مالکان نے لاکھوں روپے مالیت کے نئے پودے لگائے تھے۔فوری متبادل جگہ نہ ملنے پر کروڑوں روپے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔کورنگی روڈ کے دونوں اطراف نرسریاں گزشتہ 30برسوں سے قائم ہیں۔آغاز میں نرسری مالکان کو 500 سے ایک ہزار گز تک کی اراضی ڈی ایچ اے انتظامیہ کی جانب سے مفت دی گئی تھی، تاہم 5سال بعد ڈی ایچ اے انتظامیہ نے نرسری مالکان سے 25پیسے گز کے حساب سے پیسے لینا شروع کیے۔مشاہدے میں آیا کہ کورنگی روڈ پر 25 سے زائد نرسریاں قائم ہیں جو اب 35 روپے گز کے حساب سے ماہانہ پیسے ڈی ایچ اے کو دیتے ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ نرسریوں میں 50 روپے سے لے 20لاکھ روپے مالیت تک کے پودے ہیں۔مذکورہ نرسریوں میں ہر 4ماہ بعد کھاد کے 8 سے 10 ٹرک ڈالے جاتے ہیں۔ ایک ٹرک کی قیمت 20 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔اس کے علاوہ نرسریوں میں پانی کے اضافی ٹینک بھی بنائے جاتے ہیں، جن میں پانی اسٹاک کیا جاتا ہے۔نرسری مالکان ہر ہفتے پانی کے ٹینکر بھی ڈالواتے ہیں۔مشاہدے میں آیا کہ موسم سرما شروع ہوتے ہی نرسری مالکان نے جرمنی،جاپان اور امریکہ سے لاکھوں روپے مالیت کے موسمی پودوں کے بیچ منگوائے تھے۔مذکورہ بیچ کے ایک پیکٹ کی قیمت ہزار روپے سے شروع ہوکر 5 ہزا روپے تک ہے۔گزشتہ دنوں ڈی ایچ اے اور سی بی سی عملے نے اچانک کورنگی روڈ کا رخ کرکے منظور نامی نرسری کے خلاف کارروائی شروع کردی۔آپریشن پر مالکان اور ملازمین میں خوف و ہراس پھیل گیا۔مالکان نے وجہ پوچھی، تو عملے نے کہا کہ تمام نرسریوں کو مسمار کیا جارہا ہے، جس پر مالکان نے کورنگی روڈ بلاک کرکے شدید احتجاج کیا۔امت کو نرسری مالک نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ جگہ ڈی ایچ اے انتظامیہ نے ہمیں الاٹ کی ہے۔پہلے مذکورہ جگہ کی قیمت پیسوں میں تھی، تاہم اب ہم 35روپے گز کے حساب سے ادائیگی کررہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ 50ہزار روپے سے زائد رقم کی گیلریاں اور لاکھوں روپے مالیت کے پودے نرسریوں میں لگے ہوئے ہیں، جو نرسری خالی کرانے پر خراب ہوجائیں گے۔اس کے ساتھ لاکھوں روپے کے آڈر بروقت نہ پہنچانے پر بھی سودے خراب ہوجائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ ڈی ایچ اے انتظامیہ کو 6ماہ کا ایڈوانس کرایہ دے رکھا ہے تاہم انتظامیہ سے ملاقات کی تھی، تو انہوں نے کہا کہ اوپر سے آڈر ہے۔آپ لوگ جگہ خالی کرے جس پر ہم نے کہا کہ متبادل جگہ نہ ملنے سے کروڑوں روپے نقصان ہوجائے گا، تو ڈی ایچ اے انتظامیہ خاموش رہی۔‘‘امت ’’ کو ڈپٹی ڈائریکٹر ڈی ایچ اے عمران نے بتایا کہ ہمیں احکامات ملے تھے کہ گرین بیلٹ کی اراضی خالی کروائی جائے، جس پر ہم نے عملدرآمد کرتے ہوئے ایک نرسری کے خلاف کارروائی کی۔فی الحال ہم نے نرسریوں کے خلاف آپریشن معطل کردیا ہے، تاہم مالکان کے لیے متبادل جگہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ہم نے مالکان کو بھی یہ کہا ہے کہ ڈی ایچ اے کی حدود میں جہاں جگہ ملے ہمیں اطلاع دے۔انہوں نے کہا کہ ہم مالکان کے ساتھ ناجائز سلوک نہیں کریں گے۔دوسری جانب انتظامیہ کے انتباہ کے بعد نرسری مالکان نے اپنے چھجے،پودے و دیگر سامان منتقل کرنا شروع کردیا ہے، جس کے باعث مزدوروں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔مزدوروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ہم یہاں پودوں کی دیکھ بھال کا کام کررہے ہیں۔سروے میں دیکھا گیا کہ نرسری کی اراضی پر مزدوروں کے لیے کمرے بھی بنائے گئے ہیں، جن کو فی الحال مسمار کیا جارہا ہے۔امت کو طاہر نامی مزدور نے بتایا کہ میرا آبائی تعلق سکھر سے ہے اور میں 5 سال سے پودوں کی دیکھ بھال کا کام کررہا ہوں۔ آڈر ملنے پر اضافی رقم بھی ملتی ہے، جس کے باعث گھر کی کفالت آسانی سے کررہا ہوں۔انہوں نے ڈی ایچ اے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے جلد از جلد ہمارے مالک کو متبادل جگہ دی جائے۔اگر ایسا نہیں ہوا تو میں بے روزگار ہوجاؤ گا۔