منرل واٹر کمپنیوں پر 1 روپیہ فی لیٹر چارج عائد

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)سپریم کورٹ نے بوتل بند پانی کمپنیوں پر زیر زمین پانی استعمال کرنے پر ایک روپیہ فی لیٹر چارج لگا دیا ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ معاملہ اب ٹیکس سے بڑھ کر اسکینڈل کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ آپ لوگ چاہے کمپنیاں بند کر دیں ، لیکن زیر زمین پانی آلودہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور قوم کا نقصان نہیں ہونے دیں گے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں منرل واٹر کمپنیوں سے زیر زمین پانی کی مد میں چارجز وصولی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک روپیہ فی لیٹر قیمت پر متفق ہیں۔نجی مشروب ساز کمپنی کے نمائندے نے عدالت میں کہا کہ قوم آپ کو پانی کے معاملے پر ہمیشہ یاد رکھے گی۔ عوام کو پینے کے لیے صاف پانی فراہم کر رہے ہیں۔ پانی کی مناسب قیمت ہونی چاہئے، ایک روپے فی لیٹر کا مطلب 42 ملین فی کیوسک ہوگا، ہم زیر زمین پانی میں منرلز شامل کرتے ہیں۔ جس کا خرچہ 5 روپے فی لیٹر آتا ہے، بوتل کے پانی سے کئی صنعتیں جڑی ہوتی ہیں، عدالت سے گزارش ہے کہ اتنا سخت فیصلہ نہ کرے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی باتوں سے لگتا ہے آپ کو 1 روپیہ فی لیٹر دینے نہیں لینے کی ضرورت ہے، عدالت کے کہنے پر ہی 25پیسے ادا ہو رہے ہیں، کیا قوم کا پانی مفت استعمال کرنے دوں،جس کمپنی کو ریٹ منظور نہیں وہ کام بند کر دے، آپ قوم کی فکر چھوڑ دیں، قوم ابلا ہوا پانی پی لے گی، کسی کے کاروبار بند ہونے کامسئلہ نہیں، اللہ سب کا رازق ہے، آج پانی کا مسئلہ حل نہ کیا تو آئندہ نسلیں معاف نہیں کریں گی۔ 30 سال بعد عوام کو پانی نہیں ملا توکیا جواب دیں گے۔ جسٹس ثاقب نثار نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ نجی کمپنی کے پانی کی رپورٹ ہم نے دیکھی ہے، بوتل کے پانی میں منرل پورے نہیں ہوتے، یہ پانی پینے سےکوئی فائدہ نہیں، بوتل والا پانی پینا چھوڑ چکا ہوں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 55 روپے لیٹر بوتل پر ایک روپیہ دینا کیا مسئلہ ہے، پانی کی قیمت سے جمع ہونے والا پیسہ بھی پانی پر ہی خرچ ہوگا، ڈیڑھ لیٹر کی بوتل پرکتنا کماتے ہیں، جس پر نجی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ ڈیڑھ لیٹر بوتل پر کوئی منافع نہیں۔ کمپنی نے گزشتہ سال 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی، 1 روپیہ فی لیٹر قیمت ہونے سے 2 ارب روپے ادا کرنا ہوں گے، چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ کیا فیکٹری مالکان پاگل ہیں جو بغیر منافع کام کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارس دیئے کہ منرل واٹر کمپنیاں پانی چوری کر رہی ہیں، فیکٹری مالکان صرف اپنے منافع کا سوچ رہی ہیں آپ کو چاہیے تھا کہ آج تک استعمال کیے گیے پانی کی رقم ڈیم فنڈ میں دیتے، کمپنیوں نے مفت میں اربوں روپے کما لیے، اربوں روپے کا پانی نکال کر فروخت کیا گیا، کمپنیاں کچھ نہ کچھ تو ادا کریں، کیا کمپنی کا حق ہے کہ زیر زمین پانی مفت استعمال کرے، قوم کو پیاسا نہیں مرنے دوں گا۔

Comments (0)
Add Comment