کراچی (رپورٹ :سید نبیل اختر)انسداد تجاوزات آپریشن کے نگراں میونسپل کمشنر کورنگی میں کے ایم سی افسران کی قائم کردہ غیر قانونی تجاوزات گرانے سے گریزاں ،کے ڈی اے اراضی پر کے ایم سی کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ملی بھگت سے 58 دکانیں تعمیر کر کے شہریوں کو کروڑوں روپے میں فروخت کی گئی ہیں ۔ میئر کراچی بھی معاملے سے لاعلم نہیں ۔ ڈائریکٹر اسٹیٹ اور اینٹی انکروچمنٹ کے نام پر مذکورہ دکانوں کو تحفظ دینے کے لیے ماہانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے ۔ اہم ذرائع نے بتایا کہ کے ایم سی کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں ہمیشہ متحدہ کے چہتے افسر کو تعینات کیا جاتا رہا ہے، تاکہ وہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں آنے والی ماہانہ رشوت کی رقم ایمانداری سے متحدہ رہنماؤں کو پہنچا تا رہے۔ معلوم ہوا ہے کہ کے ڈی اے کی کے ایم سی سے علیحدگی سے قبل لانڈھی، کورنگی کا علاقہ کے ایم سی میں بطور افسر تعینات منیر کے پاس تھا، جہاں وہ اپنی مرضی سے تعمیرات کرواتا اور غیر قانونی الاٹمنٹ کے بعد وہاں سے ماہانہ بھتہ وصول کرتا تھا۔ منیر کے حوالے سے معلوم ہوا کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ لندن کے رہنما مصطفیٰ عزیز آبادی کا سگا بھائی ہے، جسے مذکورہ علاقوں کا کنٹرول دیا گیا تھا اور 20 سال تک تعیناتی کے دوران کے ڈی اے افسران کو مذکورہ علاقوں میں داخلے کی اجازت تک نہ تھی۔ منیر کے حوالے سے مزید معلوم ہوا کہ وہ بھتے کی رقم براہ راست لندن سیکریٹریٹ بھجواتا رہا تھا اور رابطہ کمیٹی کراچی بھی اسے کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ منیر نے اپنی تعیناتی کے دوران کورنگی میں کے ایم سی کے تحت کئی دکانیں تعمیر کروائیں اور اس کے عوض کروڑوں روپے کا بھتہ وصول کیا۔ معلوم ہوا کہ سالہا سال کے لئے الاٹ کی جانے والی کے ایم سی کی ان دکانوں کا انتہائی معمولی کرایہ ہوتا ہے اور الاٹمنٹ چالان کی فیس بھی چند ہزار روپے ہوتی ہے جس کے لئے کسی بھی علاقے میں امیدواروں کی کمی نہیں ہوتی۔ کے ایم سی کے کرپٹ افسران ہی دکانیں الاٹ کرتے ہیں جو مارکیٹ ریٹ کے مطابق انہیں بھتے کی رقم دینے کی حامی بھرتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ لانڈھی کورنگی سے منیر کا کنٹرول اس وقت ختم ہوا جب میئر کراچی وسیم اختر نے معاملات سنبھالے۔ وسیم اختر نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ہی منیر کو ہٹادیا اور ان کی جگہ عثمان کو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ ذرائع نے بتا یا کہ نئے افسران کی تعیناتی کے بعد کورنگی میں 3 مقامات چڑیا گھر، گلشن کباڑی مارکیٹ اور کورنگی 4 میں واقع موبائل مارکیٹ کے اطراف 58 دکانوں کی تعمیرات شروع ہوئیں، جس کے 100 سے زائد خریدار سامنے آئے اور متحدہ قومی موومنٹ کے سیکٹر انچارج کی سفارش پر 58 افراد کو الاٹمنٹ آرڈر جاری کرنے کا فارمولہ طے پایا گیا۔ 12 فٹ چوڑی اور 14 فٹ لمبی دکانوں کے لئے 50 ہزار روپے کا الاٹمنٹ آرڈر جاری کردیا گیا اور دکانداروں سے 10 سے 12 لاکھ روپے فی کس وصولی کرلی گئی جس میں یہ یقین دہانی شامل تھی کہ اب کبھی بھی انہیں ان دکانوں سے کوئی نہیں نکالے گا ۔ زیر تعمیر دکانوں کا قبضہ دینے سے قبل ہی کے ایم سی افسران کی کرپشن بے نقاب ہوئی اور 2017 کے آخری دنوں میں میئر کو نوٹس لینا پڑا تاہم اس وقت تعینات اسٹنٹ ڈپارٹمنٹ کے سینئر ڈائریکٹر عبدالقیوم کے خلاف کارروائی سے گریز کرتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کو معطل کردیا گیا اور مبینہ کرپشن میں ملوث دیگر افسران کے خلاف بھی ایکشن لینے کا دعویٰ کیا گیا ، لیکن بعد میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جاسکی ، معلوم ہوا کہ ماضی میں اسٹنٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرز کے خلاف اینٹی کرپشن میں مقدمات بھی درج ہوئے اور انہیں گرفتاریوں کا سامنا بھی رہا ہے۔ لیکن سونے کی چڑیا کہلانے والے اس ڈپارٹمنٹ میں برسوں سے جاری کرپشن کی روک تھام سے میئر کراچی نے گریز کررکھا ہے۔ دوسری جانب کے ایم سی کے کرپٹ افسران کے ہاتھوں لٹنے والے شہری اپنی لاکھوں روپے کی رقوم پھنسنے پر پریشان ہیں اور کے ایم سی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ ذرائع نے کہا کہ کورنگی میں جہاں جہاں دکانیں تعمیر کی جا رہی تھیں وہاں کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق دکانوں کی مالیت 20 سے 30 لاکھ روپے بتائی جاتی ہے اور اب تک سامنے آنے والے متاثرین میں سے کسی نے بھی 10 لاکھ روپے سے کم رقم ادا نہیں کی ۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ کے ایم سی کے افسران جس اراضی پر دکانیں تعمیر کرکے رقم بٹورہے تھے ۔ وہ کے ایم سی کی ہیں ہی نہیں۔ تحقیقات پر یہ بات سامنے آئی کہ تمام دکانیں کے ڈی اے کی اراضی پر بنائی گئی ہیں۔جن سے اینٹی انکروچمنٹ اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نام پر ماہانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے ۔‘‘امت ’’نے مذکورہ معاملے پر انسداد تجاوزات کے نگران میونسپل کمشنر ڈاکٹر سیف سے ان کا مؤقف جاننے کے لئے رابطے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا ۔انہیں اس سلسلے میں ٹیکسٹ میسجز بھی بھیجے گئے لیکن انہوں نے اس کا جواب بھی نہیں دیا۔