اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) چیف جسٹس ثاقب نثار نے نے اپنے تمام مقدمات نمٹانے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ جن کیسز کا نوٹس لیا ہے، انہیں ادھورا نہیں چھوڑوں گا، فیصلہ کرکے جاؤں گا۔ بنی گالا کیس کی سماعت کے دوران انہوں نے یہ ریمارکس بھی دیئے ہیں کہ موجودہ حکومت کے پاس نہ تو اہلیت ہے، نہ ہی منصوبہ بندی، بہت ہی نیا پاکستان بن رہا ہے۔ جب کہ پاکپتن میں محکمہ اوقاف کی زمین کی الاٹمنٹ کے معاملے پر نواز شریف کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ منگل کے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے بنی گالہ تجاوزات کیس کی سماعت کی تو اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سی ڈی اے کی جانب سے رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق 1960کے نقشے کے مطابق بنی گالہ کے زون 4میں سڑکیں ہیں، 1992اور 2010 میں ترمیم کی گئی اور زون 4 کے کچھ علاقے میں نجی ہاوسنگ سوسائٹیوں کو بھی اجازت دی گئی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ابھی کافی سارا سرسبز علاقہ موجود ہے ،جس کو بچایا جاسکتا ہے ،جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نے اس علاقے میں سڑکیں اور سیوریج بنانی ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ زیر زمین بجلی کی لائنیں بچھائیں اور ٹرینیں چلانا چاہیں، اس کے لیے بھی آپ کو زمین چاہیے، چونکہ بہت ہی نیا پاکستان بن رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سی ڈی اےنےابھی تک کوئی پلان جمع نہیں کرایا، بنی گالا منصوبہ بندی کےتحت بناناہےتوتعمیرات خریدنی پڑیں گی، مالکان کوازالہ اداکرناپڑےگا اور ریگولرائزیشن کے لیے مالکان کو پیسے دینا ہوں گے۔ بہتر یہی ہے کہ پرانی تعمیرات کو ریگولرائز کر دیں، عدالت نے ریگولرائزیشن فیس 5 سے کم کر کے 2.5 فیصد کر دی، سی ڈی اے بہت امیر ہو گیا ہے۔اس دوران وکیل عائشہ حامد نے کہا کہ بنی گالا کی ریگولرائزیشن اس طرح سے نہیں ہو سکتی،اگرکوئی رقم نہیں دیتا تو تعمیرات گرا دیں، جس پر وزیراعظم کے وکیل بابراعوان نے کہا کہ عدالت نے 5 نکات فریم کیے تھے، بنی گالا تعمیرات ریگولرائزیشن کی حد تک از خود نوٹس طے ہو چکا ہے، نالہ کورنگ پر 3سروے کرانے کا معاملہ بھی طے ہو گیا۔بابر اعوان کا کہنا تھا کہ تیسرا نقطہ لیز کا تھا اور چوتھا بوٹنیکل گارڈن ہے، 70فیصد کام ہو چکا ہے، دیوار بن چکی ہے، تاہم آخری مسئلہ سیوریج کا ہے، جس کا پانی صاف کیا جاسکتا ہے۔ تعمیرات کی ریگولرائزیشن کیلئے سی ڈی اے کو درخواستیں آ رہی ہیں، جن کی اسکروٹنی کا عمل جاری ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم نے گھر ریگولر کرانے کیلئے درخواست اور نقشہ دے دیا ہے، ریگولرائزیشن سے ملنے والی رقم علاقے کی ترقی پر خرچ ہوگی۔ ایک موقع پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سی ڈی اے آج کل عدالتی حکم کی آڑ میں لوٹ مار کر رہا ہے، جس کے بارے میں حکم نہیں دیا وہاں بھی جا کر پیسے مانگے جا رہے ہیں۔ سی ڈی اے کو عدالتی احکامات سے طاقت ملی اور وہ نشے میں جھوم رہا ہے۔ اس موقع پر نمائندہ سروے جنرل آف پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ 3.42ملین سی ڈی اے اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) نے دینے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سی ڈی اے نے ادائیگی کی منظوری دے دی ہے، کچھ پیسے پنجاب حکومت نے بھی دینے ہیں۔سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ سروے جنرل آف پاکستان کو ایک مہینے میں ادائیگی کی جائے۔ دریں اثنامحکمہ اوقاف پاکپتن میں زمین کی الاٹمنٹ کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل کا جواب مسترد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا اور کہا ہے کہ نواز شریف خود وضاحت کریں کہ انہوں نے بطور وزیراعلی نوٹیفکیشن واپس کیوں لیا؟۔ قبل ازیں منور اقبال ایڈووکیٹ نے جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ ڈی نوٹیفکیشن کی سمری پر نواز شریف نے دستخط نہیں کیے تھے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اپنے ہوش وحواس میں ہیں؟ آپ نے ملک کے3بار وزیراعظم رہنے والے نوازشریف کا سیاسی کیریئر داؤ پر لگادیا، کیا آپ کبھی سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملے بھی ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ میں اس کیس کے سلسلے میں ایک بار نوازشریف سے مل چکا ہوں، یہ جواب انہی کی ہدایت پر جمع کرایا گیا ہے، میں عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف نے یہ آرڈر نہیں دیا پھر تو اس کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ ہوگیا،اگر وہ اس کی ذمہ داری نہیں لے رہے پھر تومعاملہ ہی ختم ہوگیا، یہ مقدمہ ریفرنس کا بنتا ہے۔ اوقاف کی زمین ڈی نوٹیفائی ہو کر درگاہ متولی کے پاس چلی گئی، اس کے بعد زمین دوسرے لوگوں کو بیچ دی گئی۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔عدالت نے نوازشریف کو طلب کرتے ہوئے سماعت 4دسمبرتک ملتوی کردی۔