اسلام آباد(رپورٹ: اخترصدیقی )سابق وزیرِاعظم اورمسلم لیگ (ن) کے تا حیات قائد نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں مجموعی طورپر151 میں سے 45 سوالات کے جوابات دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان پرقانون کے مطابق دوبارہ استثنیٰ مانگ لیاہے۔نواز شریف نے اپنے جواب میں کہاہے کہ آئین کے آرٹیکل 66کے تحت قومی اسمبلی میں کی گئی تقریرکواستثنیٰ حاصل ہے، قومی اسمبلی میں کی گئی تقریرکسی عدالت کے سامنے نہیں پیش کی جاسکتی۔بقیہ سوالات کے جوابات وکیل سے مشاورت کے بعدتحریری شکل میں جمع کرائے جائیں گے ۔قومی اسمبلی سے خطاب میں العزیزیہ اسٹیل مل کے قیام سے متعلق میرا بیان ذاتی معلومات پر مشتمل نہیں تھا، میں نے وہ تقریر حسین نواز کی جانب سے حاصل ہونے والی معلومات پر کی۔انھوں نے مزیدکہاکہ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ گلف اسٹیل ملز، العزیزیہ یا دبئی فیکٹری کا مالک ہوں، میرا گلف اسٹیل ملزکے کئے گئے معاہدوں سے کوئی تعلق نہیں رہا، العزیزیہ اسٹیل مل میرے والد مرحوم نے قائم کی تھی۔العزیزیہ اسٹیل مل کی فروخت سے کبھی کوئی تعلق رہا۔بچوں کے ٹیکس سمیت دیگر معاملات پر وہ جواب دینے کے پابندنہیں ہیں۔ یہ سب ان کے بچوں سے پوچھے جائیں۔بدھ کواسلام آبادکی احتساب عدالت نمبر دو میں جمع کرائے گئے جواب میں العزیزیہ ریفرنسزمیں سوالات کے جوابات دیے ہیں ۔خاندان میں بااثر شخص ہونے کے حوالے سے سوال پر نواز شریف نے کہا کہ یہ تفتیشی افسر کی رائے ہے کہ میں شریف خاندان کا سب سے بااثر شخص تھا۔ میرے والد میاں شریف آخری سانس تک اپنے خاندان کے سب سے بااثر شخص تھے۔یہ درست ہے کہ عدالت میں ٹیکس ریٹرنز، ویلتھ اسٹیٹمنٹس اور ویلتھ ٹیکس ریٹرن میں نے ہی جمع کرائے تھے۔ حسین نواز کی جانب سے جمع کرائے گئے ٹیکس سے متعلق موقف کا جواب دینے کا مجاز نہیں۔میرے بچے مجھ پر انحصار نہیں کرتے ہیں ۔ پچھلے 22سال سے پاکستان سے باہر اپنا کاروبار چلا رہے ہیں اور وہ جائیدادوں اور کمپنیوں کے کبھی بھی مالک نہیں رہے۔ان کے تینوں بچوں حسین نواز،حسن نوازاور مریم نواز میں سے کسی نے بھی 1993سے لے کر 1996کے درمیان درخواست میں درج جائیدادیں اور کمپنیاں نہیں خریدیں۔ان تینوں یا ان کے خاندان میں سے کسی کا نیسکول لمیٹڈ یا نیئلسن لمیٹڈ کمپنی کی 1992یا 1994میں تشکیل سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس پیراگراف میں مریم نواز کے خلاف لگائے جانے والے تمام الزامات سوائے ان کے نیسکول کمپنی کی ٹرسٹی ہونے کے باقی سب کی تردیدکی جاتی ہے اور یہ تردیدسپریم کورٹ میں بھی کی گئی تھی ۔ ان کے خاندان پر ٹیکس چوری، اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی، منی لانڈرنگ، بیرون ملک رقوم کی منتقلی اور حکومتی واجبات کی عدم ادائیگی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ لندن میں پارک لین اور مے فیئرمیں موجود 4فلیٹس ان کی ملکیت میں نہیں ہیں۔ اسی حوالے سے مزید کہا کہ کیونکہ یہ فلیٹس ان کی ملکیت میں نہیں ہیں، اس لیے الیکشن 2013کے گوشواروں میں بھی ان کا ذکر نہیں ہے۔ کیپیٹل ایف زیڈ ای کے بورڈ کے چیئرمین رہنے کے حوالے سے نوازشریف نے اپنے جواب میں کہاکہ جہاں تک ان کے بورڈ کے سربراہ ہونے کا تعلق وہ ایک رسمی عہدہ تھا ،جو2007میں ملک بدری کے دوران انہوں نے حاصل کیا تھا اور ان کا کمپنی کے معاملات سے اور اس کو چلانے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسی طرح انہوں نے 10ہزار درہم کی تنخواہ بھی کبھی وصول نہیں کی۔ اس طرح وہ تنخواہ ان کے اثاثوں کے زمرے میں نہیں آتی۔نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے سوال نمبر 16پراعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایک سوال میں 2سوالات پوچھے گئے،اگلے 4سوالوں میں بھی وہی بات دہرائی گئی،خواجہ حارث نے کہا کہ چاروں سوالوں میں ہل میٹل اکاؤنٹ میں ڈیبٹ کریڈٹ کا پوچھا گیا۔عدالت سے استدعا ہے کہ ان تمام سوالوں کوایک ہی کرلیاجائے،خواجہ حارث نے کہا کہ تفصیلات دیکھنی ہوگی کہ ڈیبٹ اورکریڈٹ ہوابھی یانہیں۔جج احتساب عدالت نے کہا کہ اگرجوابات پردستخط ہوجائیں تومزیدسوال فراہم کردیں گے،خواجہ حارث نے کہا کہ سوال نمبر 46میں بھی کافی ساری چیزیں مکس ہیں،اسے دیکھ لیں۔ کچھ سوالات گنجلگ اور افواہوں پر مبنی ہیں اور کچھ سوالات میں ابہام بھی پایا جاتا ہے۔متحدہ عرب امارات سے 28جون 2017کو ملنے والے ایم ایل اے کا جواب عدالتی ریکارڈ عدالت میں پیش کرنے اور عربی زبان میں ایم ایل اے کا جواب بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا نے کے سوال کے جواب میں نواز شریف نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ عربی زبان میں موصول ایم ایل اے کے جواب کا ترجمہ ساتھ نہیں تھا، جس شخص نے ترجمہ کیا اسے گواہ نہیں بنایا گیا۔میاں نوازشریف کی جانب سے مریم نوازکوجاری چیکوں بارے میں جواب میں کہاگیاہے کہ گواہ نے جن چیکوں کی بات کی ہے اس کوثابت نہیں کیاگیاہے اس کوثابت کرنابھی گواہ کی ذمہ داری تھی ،جوکہ پوری نہیں کی گئی یہ سب چیکس جن کی تاریخوں اور رقم کابتایاگیاکہ میاں نوازشریف نے 14اگست 2016مریم نواز کو ایک کروڑ 95لاکھ کا چیک ،13جون 2015 کو نواز شریف نے مریم نواز کو بارہ ملین اور تین نومبر 2015کو 2کروڑ 88لاکھ کا چیک دیا۔ یکم نومبر 2015 کو نواز شریف نے مریم نواز کو 65لاکھ،10مئی 2015کو دس کروڑ پچاس لاکھ، 21نومبر 2015کو 18لاکھ روپے اور 27مارچ 2016کو 40ملین کا چیک جاری کیا۔ نواز شریف کی جانب سے 10فروری 2016کو 30ملین، 14فروری 2016کو 50لاکھ، دس مئی 2016کو 37ملین اور 31جنوری 2017کو 6ملین کا چیک مریم صفدر کے نام جاری کیا گیا۔ان چیکوں کے اجراء کی تاریخوں سمیت دیگر دفتری ریکارڈشامل نہیں کیاگیاہے اس لیے ابھی ان چیکوں بارے حقائق دستاویزا ت کے ذریعے ثابت کرناباقی ہے جب تک وہ ثابت نہیں ہوں گے ایسے میں ان چیکوں کی حقیقت بارے سوالات اٹھتے رہیں گے۔ العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔وہ اپنی بابت کہہ رہے ہیں کہ ان کاان کمپنیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان کے بچوں کاکوئی تعلق ثابت ہواہے ۔ نوازشریف نے اپنے تحریری جواب میں استغاثہ کی گواہ نورین شہزادی کے بیان ریکارڈ کرانے کے بارے میں کہاکہ نورین شہزادی نے نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کے اکاؤنٹ کی تفصیلات پیش کیں اور کہاگیاکہ نواز شریف کا اکاؤنٹ اگست 2009 میں کھولا گیا، اکاؤنٹ کھولنے کے فارم میں نواز شریف کو چوہدری شوگر ملز کا سی ای او لکھا گیا ہے اوراکاوٴنٹ کھولنے کا مقصد کاروبار سے ہونے والی بچت کو رکھنا ہے۔نواز شریف نے ریکارڈ پراعتراض اٹھایا کہ اوپننگ فارم اورکے وائی سی میں اکاؤنٹ ٹائپ میں تضاد ہے، اوپننگ فارم میں اکاؤنٹ ٹائپ کے خانے میں کرنٹ اکاونٹ پر نشان لگایا گیا، جس پر گواہ نورین شہزادی نے بتایا کہ صارفین کے اصرار پر کے وائی سی (فارم) میں سیونگ لکھا جاتا ہے۔نورین شہزاد اپنے ادارے کا اتھارٹی لیٹر بھی پیش کرنے میں نا کام رہی، انکی جانب سے دستاویزات کو ریکارڈ حصہ نہیں بنایا جاسکتا، نورین شہزادی کو پیش کرنے سے پہلے ہمیں نوٹس نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کانام گواہوں کی فہرست میں شامل تھا۔تحریری جواب میں میاں نوازشریف نے اپنے خلاف استغاثہ کے تمام گواہوں کاتقابلی جائزہ بھی پیش کیاہے ا ور ان کے ریکارڈ کرائے گئے بیانات کے جواب میں کہاہے کہ ان گواہوں کی گواہی کوقانون شہادت پرپرکھاجائے تاکہ ان کاپتہ چلایا جاسکے کہ انھوں نے یہ بیانات کس حدتک قانون کی پابندی کی گئی ہے ۔میاں نوازشریف نے اپنے جواب میں جے آئی ٹی کی جانب سے کی گئی تحقیقات اور ان کی جانب سے پیش کردہ شواہد پر بھی جواب دیاہے اور کہاہے کہ ان تمام شواہد کوکسی فورم کے ذریعے تصدیق نہیں کرائی گئی ہے اس لیے ان شواہد پر سوالات اٹھتے ہیں ۔انھوں نے اپنے سیاسی کیریئر سمیت کاروباری اور دیگر تفصیلات بھی عدالت کوبتائی ہیں۔ نواز شریف اپنے جواب میں بتایا کہ انہوں نے استغاثہ کے شواہد کو دیکھ لیا، سن لیا اور سمجھ لیا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے قائد کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے 3مرتبہ وزیرِ اعظم رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999میں ملک میں مارشل لا نافذ کردیا تھا جس کے بعد سے 2013تک کوئی بھی عوامی عہدہ اپنے پاس نہیں رکھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنے صاحبزادے حسین نواز اور حسن نواز کے انکم ٹیکس اور ان کے ویلتھ اسٹیٹمنٹ سے متعلق سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔نواز شریف نے کہا کہ یہ درست ہے کہ میں نے اپنے انکم ٹیکس گوشوارے میں اپنے تمام اثاثے اور ذرائع آمدن ظاہر کیے۔دوسری جانب دوران سماعت جج محمد ارشد ملک نے نواز شریف سے کہا کہ میں آپ کو بیان لکھوا دیتا ہوں، پھر جو پوچھنا ہوگا وہ پوچھ لوں گا۔نواز شریف نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 45سوالات کے جوابات دیے ہیں جبکہ استدعا کی کہ باقی 5سوالات کے جوابات وہ اپنے وکیل خواجہ حارث سے مشاورت کے بعد دیں گے جس کے لیے وقت دیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ سوال نامے میں کچھ سوالات پیچیدہ ہیں جن کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔جج ارشد ملک نے ریمارکس دیے کہ جن سوالات کے جوابات اطمینان بخش نہیں ہوئے تو ان پر مزید سوالات پوچھے جائیں گے اگر ایک سوال میں کوئی تشنگی باقی ہو تو وہ پھر پوچھ لوں گا۔نواز شریف اپنے جواب میں بتایا کہ انہوں نے استغاثہ کے شواہد کو دیکھ لیا، سن لیا اور سمجھ لیا ہے۔