پی ٹی ایم کی سرپرستی میں افغان حکومت کھل کر سامنے آگئی

پشاور/خیبرایجنسی/اسلام آباد(نمائندگان امت/مانیٹرنگ ڈیسک) ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث پشتون تحفظ موومنٹ کی سرپرستی میں افغان حکومت کھل کر سامنے آگئی۔ اسلام آباد سے اغوا کے بعد افغانستان میں قتل ہونے والے ایس پی رورل پشاور طاہر خان داوڑ کی میت حوالے کرنے کیلئے طورخم بارڈر پر پاکستانی حکام کو گھنٹوں انتظار کرایا گیا۔ افغان حکام کا اصرار تھا کہ لاش محسن داوڑ یا قبائلی نمائندوں کے ہی سپرد کی جائے گی۔ تمام دن مذاکرات کے باوجود افغان اہلکاروں کی ڈھٹائی دیکھتے ہوئے پی ٹی ایم کے رہنما کو مذاکراتی عمل میں شریک کیا گیا اور شام 5 بجے کے قریب وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی و دیگر پاکستانی حکام مقتول پولیس افسر کا جسد خاکی وصول کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اشرف غنی حکومت کی بدسلوکی پر پاکستان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاجی مراسلہ دیا گیا۔ترجمان دفترخارجہ نے بتایا کہ ایس پی طاہرداوڑکی موت پرافغان ناظم الامورکودوبار دفترخارجہ طلب کیا گیا اور جسد خاکی حوالے کرنے میں تاخیرپرافغانستان سے احتجاج کیا گیا۔ پاک فوج کے ترجمان نے بھی مقتول ایس پی کی لاش حوالے کرنے میں افغانستان کی جانب سے تاخیری حربوں پرشدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ کا اغوا، قتل اور اس کے بعد افغان حکام کا رویہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ صورتحال افغانستان میں دہشت گرد تنظیم سے بڑھ کر ملوث ہونے کا اشارہ دیتی ہے۔ میجرجنرل آصف غفور نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ کا افغانستان میں بہیمانہ قتل انتہائی قابل مذمت ہے، ہم ایک بہادر پولیس افسر سے محروم ہوگئے ہیں۔ پاکستانی حکام کی جانب سے معاملے کی تحقیقات جاری ہیں، ہم ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ افغان سیکورٹی فورسز سرحدوں پر باڑ لگانے اور دو طرفہ بارڈر سیکورٹی میں تعاون کریں ، تاکہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال کو روکا جاسکے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ قبائلی پس منظر رکھنے والے پولیس افسر کے اغوا سے لیکر اسے افغانستان لے جانے اور بے رحمانہ قتل کے پیچھے افغان حکومت کے عزائم سامنے آگئے ہیں، لاش حوالگی کے معاملے پر طرز عمل نے ثابت کیا ہے کہ یہ سب طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا۔ جس کے ذریعے پی ٹی ایم کی دم توڑتی ملک دشمن سرگرمیوں کو بھی زندگی دینے اور محسن داوڑ کو ہیرو بنانے کی کوشش کی گئی جسے قبائل کی اکثریت مسترد کر چکی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تمام معاملے میں پشتون تحفظ موومنٹ کو آگے لانے کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا تھا، افغان حکام کا رویہ بین الاقوامی اور سفارتی اصولوں کے بھی خلاف رہا۔جس نے اشرف غنی حکومت کے مکروہ چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے۔ دریں اثنا وزیراعظم عمران خان نے ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے خیبرپختون پولیس کو واقعہ کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے ۔جمعرات کو ایک ٹوئٹ میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کو کے پی پولیس سے مکمل تعاون کی بھی ہدایت کی ،جبکہ وزیرمملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی سے کہا کہ وہ واقعہ کی تحقیقات کے بعد رپورٹ پیش کریں۔ وزیراعظم نے مزید لکھا کہ ایس پی طاہر خان کے افسوسناک قتل کے واقعہ کی نگرانی خود کر رہا ہوں۔ اسی دوران وزیراعلیٰ ہاؤس پشاورمیں صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی اور شہید طاہر خان کے بھائی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےوزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان آج شہید ایس پی محمد طاہر داوڑ کے حوالے سے بریفنگ دیں گے اور اس حوالے سے حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے قوم کو آگاہ کریں گے۔ افغان حکومت پاکستان میں انتشار پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ پاکستان کے قونصل خانے کو شہید ایس پی کا جسد خاکی حوالے نہ کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ اس کے بعد جو رویہ طورخم بارڈر پر دیکھنے کو ملا وہ بھی تکلیف دہ تھا۔ جس پر افغان حکومت سے بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مہاجرین کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں ڈھائی گھنٹے کھڑا کرنے کے بعد کہا گیا کہ لاش نہیں دی جائے گی۔ افغانستان کو سوچنا ہوگا کہ ایسا رویہ کیوں اپنایا گیا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 2دن پہلےبھی مجھ سے پوچھا گیا تاہم افغان حکومت نے کنفرم نہیں کیا تھا۔ سیاست کھیلی جارہی تھی اور مقصد پاکستان میں انتشار پھیلانا تھا۔ صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی کا کہنا تھا کہ پہلی دفعہ گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ ایسا رویہ دیکھا ۔ ہمیں دو تین گھنٹے بارڈر پر کھڑا کیا گیا۔آج 3بجے اس مسئلے پر میٹنگ ہوگی ۔ریاست اس قتل پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ داوڑ صاحب کی فیملی سب سے اہم تھی آج وہ ہمارے ساتھ بیٹھے ہیں۔ریاست خاموش نہیں تھی۔اپنی پوری کوشش کی۔آئی جی کے پی ،آئی جی اسلام آباد تمام ایجنسیوں کو آن بورڈ لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ یہی حیرانگی کی بات ہے کہ لاش افغانستان سے کیسے ملی۔ شہید طاہر خان کے بھائی کا کہنا تھا کہ میرے بھائی نے قوم کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں ۔ میں اس ریاست سے عرض کرتا ہوں کہ جس کسی نے بھی میرے بھائی کو شہید کیا کہ اس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ قبل ازیں مقتول پولیس افسر طاہر داوڑ کا جسد خاکی وصول کرنے کے لیے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی، خیبرپختون کے وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی، ڈپٹی کمشنر خیبر محمود اسلم سمیت دیگر حکام طورخم بارڈر پہنچے ، تاہم افغان حکام نے میت حوالے کرنے سے انکار کردیا اور اصرار کیا کہ وہ طاہر داوڑ کی میت قبائلی نمائندوں یا محسن داوڑ کے حوالے کریں گے، دونوں ممالک کے حکام کے درمیان تمام دن مذاکرات ہوتے رہے تاہم معاملہ حل نہیں ہوا ، جس کے بعد حکومت کی اجازت سے محسن داوڑ بھی طورخم بارڈر پہنچے اور مذاکرات میں حصہ لیا۔کامیاب مذاکرات کے بعدشام 5بجے افغان حکام کی جانب سے ایس پی طاہر داوڑ کی میت پاکستان کے حوالے کردی گئی ۔ میت وزیرمملکت داخلہ شہر یار آفریدی،ایم این اے محسن داؤڑ، سینیٹر صالح شاہ،اجمل وزیر، صوبائی وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی، اورڈی سی خیبر پختون محمود اسلم وزیرنے وصول کی۔ اس موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے اور میڈیا کے نمائندوں سمیت کسی غیرمتعلقہ شخص کو طورخم سرحد پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، انتظامیہ نے وزیر داخلہ شہر یار کی طرف سے میڈیا کو بریفنگ کے بہانے تحصیل ریسٹ ہاؤس میں مقامی اور پشاورسے آنے والے تمام میڈیا نمائندگان کو ایک ساتھ جمع کر دیا تھا لیکن عین موقع پر بتایا گیا کہ وزیر داخلہ ہیلی کاپٹر میں میت کے ساتھ پشاور روانہ ہو گئے ہیں ۔ اس لئے بریفنگ نہیں دی جا سکتی۔علاوہ ازیں سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ ایس پی طاہر خان داوڑ پاکستان کا غیرت مند بیٹا تھا، طاہر داوڑ کے قاتل چاہے پاکستان میں ہوں یا افغانستان میں، انہیں نشان عبرت بنایا جائے گا اورکیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ نے بتایا کہ طاہر داوڑ 2خودکش حملوں میں بچے، انہیں اس سے قبل بھی دھمکیاں ملتی رہی تھیں،اسلام آباد کے علاقے بہارہ کہو میں ان کے بھائی اور بھابی کو بھی شہید کیا گیا، وزیر مملکت نے بتایا کہ ایس پی طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے اغوا کرکے پہلے میانوالی پھربنوں کے راستے افغانستان لے جایا گیا۔یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، کچھ عناصر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مزید برآں افغان بارڈر سائیڈ پر پیٹرولنگ کا کوئی نظام نہیں ہے، جس پر افغان حکومت کو آگاہ کیا جاچکا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment