اسلام آباد(رپورٹ: اخترصدیقی)توہین رسالت ﷺ میں ملوث ملزمہ آسیہ ملعونہ کی رہائی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی اپیل کی جلدسماعت کے لیے درخواست دائرکردی گئی ،جبکہ عدالتی فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی پر سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے کوئی اعتراض نہیں لگایاگیاہے اس لیے اب صرف اپیل کی سماعت کے لیے لارجربنچ کی تشکیل کی جائیگی۔ امکان ہے کہ اگلے ہفتے بنچ کی تشکیل کردی جائیگی۔ ذرائع نے روزنامہ امت کوبتایاہے کہ آسیہ ملعونہ کیس کے مدعی مقدمہ قاری محمدسلام کے وکلاء نے رہائی کے فیصلے کے حوالے سے جونظر ثانی کی اپیل دائرکی تھی اس کاپہلامرحلہ مکمل ہوگیاہے اور رجسٹرارسپریم کورٹ سمیت متعلقہ حکام نے اپیل پر کسی بھی قسم کاکوئی اعتراض نہیں لگایاہے ۔اگر ایساکیاجاتاتواپیل مدعی کے وکلاء کوواپس کردی جاتی اور اس حوالے سے انھیں اس اعتراض کے خلاف چیف جسٹس پاکستان کواپیل کرناپڑتی اب جبکہ ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے بلکہ اب سپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان کے حکم پر اس نظر ثانی کی اپیل کوسماعت کے لیے مقررکرنے اور لارجربنچ کے قیام کی ہدایات جاری کرناہیں ۔نظرثانی اپیل پر اعتراض نہ لگائے جانے اور اپیل کوتاحال سماعت کے لیے مقررنہ کرنے پر مدعی مقدمہ کے وکلاء اظہر صدیق ایڈووکیٹ اور غلام مصطفی ایڈووکیٹ کی جانب سے اپیل کی جلدازجلد سماعت کے لیے ایک اضافی درخواست تیارکی گئی ہے اور اس کوعدالت میں دائر کردیاگیاہے اس درخواست میں موقف اختیار کیاگیاہے کہ سپریم کورٹ کے مروجہ ضابطہ کار کے مطابق نظر ثانی اپیل کواب تک سماعت کے لیے مقرر کردیا جاناچاہیے تھاجوکہ ابھی تک نہیں کیاگیاہے ،عدالتی فیصلے سے پوری قوم میں ایک ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے قوم چاہتی ہے کہ اس اپیل کی جلدسماعت ہواور سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے ۔اپیل میں مزیدکہاگیاہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملکی معاملات بھی خراب ہوئے اور حکومت نے اس حوالے سے جونقصانات ہوئے ان کی بھی تفصیلات عدالت میں پیش کردی تھیں ۔عدالت اس نظرثانی اپیل کو جلد سماعت کے لیے مقررکرے اور ملعونہ کی سزائے موت سے بریت کے فیصلے کوکالعدم قرار دے۔ملزمہ نے ماتحت عدالتوں میں اپنے جرم کااقرار کیااس کے بعداس کی رہائی ہوناآئین وقانون کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں سے بھی متصادم ہے۔ سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں میں قانون شہادت کے تحت ملزمان کی گواہیوں اور اس کے تحت اقرار جرم کوبہت اہم قرار دیاہے ۔ملزمہ کے حق میں کوئی گواہ بھی پیش نہیں ہواجبکہ دوسری جانب گواہوں نے اس کی ہرزہ سرائی بارے ناصرف انکشاف کیاہے بلکہ اس بارے انھوں نے اپنے بیانات بھی قلم بندکرائے علاقہ کے لوگوں نے بھی اجتماع میں ملعونہ سے بازپرس کی تھی اور جب معاملہ ثابت ہواتوتبھی تھانے میں باقاعدہ مقدمہ درج کرایاگیا۔ملزمہ کے پاس اپنی صفائی کے لیے قانونی طورپر کچھ بھی نہیں تھاایسے میں اس کی رہائی پر آئینی وقانونی سوالات اٹھ رہے ہیں اس لیے نظرثانی اپیل کی سماعت جلدکیاجاناقرین انصاف ہوگا۔مدعی مقدمہ کی جانب سے نظرثانی کی اپیل دائرکرنے والے سینئر قانون دان اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے روزنامہ امت سے گفتگو میں بتایاکہ انھوں نے ملزمہ کی سزائے موت ختم کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پرنظرثانی کی جواپیل دائر کی تھی اس کی جلدسماعت کے لیے بھی درخواست دائر کی ہے تاہم وقت ختم ہونے کی وجہ سے قانونی تقاضے پوری کرتے ہوئے آج جمعہ کودائر کردی جائیگی انھوں نے بتایاکہ سپریم کورٹ کواس نازک معاملے میں شریعت اپیلٹ بنچ سے معاونت لینا چاہیے تھی ۔شرعی معاملات میں سپریم کورٹ میں عالم جج موجودہیں جوکہ شریعت اپیلٹ بنچ میں پہلے بھی مختلف مقدمات کی سماعت کرتے رہتے ہیں پچھلے دنوں بھی ایک شریعت اپیلٹ بنچ تشکیل دیاگیاتھاجس نے حدود سمیت بعض اہم مقدمات کی سماعت کی ہے ۔انھوں نے کہاکہ قانونی طورپر اور سپریم کورٹ کے قواعدوضوابط کودیکھاجائے تواس نظر ثانی کی اپیل کوسماعت کے لیے اب تک مقرر کردیا جاناچاہیے تھا۔انھوں نے کہاکہ قواعدکے مطابق سپریم کورٹ دائر درخواست یااپیل کاجائزہ چوبیس گھنٹوں میں کرلیتی ہے اور اس کے بعداگر درخواست پر کسی بھی قسم کاکوئی اعتراض ہو توپھر رجسٹرار سپریم کورٹ اس پر باقاعدہ طور پر اعتراض لگاکر درخواست یااپیل واپس کردیتے ہیں ہماری دائر کردہ نظرثانی اپیل پر رجسٹرار سمیت کسی متعلقہ حکام نے کوئی اعتراض نہیں لگایااس کامطلب واضح ہے کہ اپیل کوابتدائی سماعت کے قابل قرار دیاگیاہے ۔چیف جسٹس پاکستان کسی بیرون ملک دورے پر جانے کی بات بھی کرچکے ہیں ایسے میں اس نظرثانی اپیل کوجلدسماعت کے لیے مقرر کیا جانا چاہیے ۔لوگوں میں عدالتی فیصلے سے کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔