ڈیپ سی پالیسی نے 60 ارب کی درآمدات داو پر لگا دی

کراچی (رپورٹ : سید نبیل اختر /اطہر فاروقی) پاکستان میں لاگوڈیپ سی فشنگ پالیسی نے 60 ارب کی درآمدات داؤ پر لگادیں۔ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ ایک لاکھ افراد گزشتہ 2 ماہ سے شدید اضطراب کا شکار ہیں ۔لانچیں کھڑی ہونے کے باعث سپلائی نہ ہونے پر برف کارخانہ مالکان کوماہانہ 1کروڑروپے سے زائد کانقصان ہورہا ہے ،جبکہ اس پیشے سے وابستہ 5ہزار مزدوربھی روزگار ختم ہونے کے خوف میں مبتلا ہیں۔

لائسنس یافتہ غیر ملکی کمپنیوں کو مچھلیاں پکڑنے کی کھلی چھوٹ دینے پرمقامی مچھیروں نے پابندیوں کے خلاف احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جمعرات کو بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ،جس سے فشر مین کوآپریٹیو سوسائٹی کے چیئرمین اورفش ٹرالرز ایسوسی ایشن کے رہنماؤں نے خطاب کیا۔ تفصیلات کے مطابق نگراں حکومت کی جانب سے نئی ڈیپ سی پالیسی لاگو کرنے کے بعد مقامی مچھیروں کا کاروبار شدید متاثر ہوا ہے ،جس کی وجہ سے مچھیروں کی انجمنوں نے فشر مین کو آپریٹیو سوسائٹی کے ساتھ مل کر حکومتی پالیسی کے خلاف احتجاج شروع کررکھا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ احتجاج سے قبل ہی مقامی مچھیروں نے سمندری حدود کی پابندیوں سے تنگ آکرشکار پر جانا چھوڑ دیا تھا ،بعد ازاں معاملہ بڑھنے پر فش ہاربر بند کردیا گیا ۔’’امت ‘‘کو فش ٹرالرز ایسوسی ایشن کے صدر حبیب اللہ نیازی نے بتا یا کہ حکومت مچھیروں کا معاشی قتل عام کررہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مقامی مچھیروں پر ڈیپ سی میں جانے پر پابندی ہے تو دوسری جانب غیر ملکی کمپنیوں کو سیکڑوں کے حساب سے لائسنس دے د ئے گئے ہیں جو پاکستانی مچھیروں کا حق ماررہی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ غیر ملکی کمپنیاں جدید طریقوں ،لیزر لائٹ اورایل ای ڈی لائٹس کے ذریعے مچھلیوں کو پکڑتی ہیں اور وہ دن دور نہیں ،جب سمندر مچھلیوں سے خالی ہوجائے گا ۔انہوں نے کہا کہ لیزر لائٹس کی وجہ سے مچھلیوں کی نسل تک تباہ ہورہی ہے، 12سال قبل بھی ڈیپ سی فشنگ لائسنس جاری کیےگئے تھے ،جس کے بعد مچھلی پکڑنے کے لئے استعمال کرنے والے جدید طریقوں نے مچھلی کی افزائش کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے ،ماضی میں بھی فشری کی پوری مارکیٹ نے ان غیر ملکی کمپنیوں کو لائسنس کے اجرا پر شدید احتجاج کیا تھا اور سندھ اسمبلی تک اس حوالے سے قرار داد بھی جمع کروائی تھی ،لیکن کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈیپ سی فشنگ سے ان غیر ملکی کمپنیوں کو فائدہ ہو رہا ہے اور تمام پاکستانی تاجروں اور ماہی گیروں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ رہنما نے وفاقی حکومت سے شکوہ کیا کہ اس مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ایک دوسرے رہنما حسین شیخ نے کہا کہ گزشتہ 2سال سے ہمارا کاروبار ٹھیک چل رہا تھا ،ل
یکن حکومت کے فیصلے نے لاکھوں افراد کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ ایف سی ایس کے ترجمان صدیق چوہدری نے بتا یا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے رواں سال ستمبر میں ایک اشتہار شائع کیا گیا ،جس میں نئی ڈیپ سی پالیسی متعارف کروائی گئی،ڈیپ سی فشنگ پالیسی کے مطابق سمندر میں 3زون قائم کئے گئے ،جس میں پہلا زون 12ناٹیکل میل پر مشتمل ہے ،جس میں قانون کے مطابق صرف سندھ والے ہی مچھلی کا شکار کر سکتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے زون کی حدود 12سے 20ناٹیکل میل پر مشتمل ہے ،جس میں وہ لوگ شکار کر سکتے ہیں ،جن کے پاس وفاقی حکومت کا لائسنس ہو ، جب کہ تیسرے زون کا رقبہ 20سے 200ناٹیکل میل تک رکھا گیا ہے ۔اس کے تحت ان لوگوں یا کمپنیوں کو شکار کی اجازت دی گئی ،جن کے پاس وفاقی حکومت کا لائسنس ہو ،چاہے وہ ملکی ہوں یا غیر ملکی ۔انہوں نے ایک اور مسئلے کی نشاندہی کی کہ بلوچستان کے ماہی گیر کو سندھ میں شکار کی اجازت ہے ،تاہم سندھ کا کوئی بھی ماہی گیر بلوچستان کی حدود میں داخل نہیں ہوسکتا ۔ مذکورہ پالیسی کی وجہ سے پیشے سے وابستہ افراد سخت اذیت میں مبتلا ہیں ۔انہوں نے بتا یا کہ ڈیپ سی پالیسی کے بعد اس سال اہداف پورا کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سالانہ 60ارب روپے سے زائد درآمدات کی خطرے میں پڑ گئی ہیں ،کیونکہ مچھلی کا شکار مکمل طور پر بند ہے ۔وفاقی وزیر کے بیان سے متعلق انہوں نے کہا کہ اب تک اس سلسلے میں نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے ،جس کی وجہ سے مچھیروں کا احتجاج جاری ہے۔ دریں اثنا نئی ڈیپ سی پالیسی کے خلاف مچھیروں نےلانچیں احتجاجاً جیٹی پر کھڑی کردی ہیں ،معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ صنعت میں سب سے زیادہ کھپت برف کی ہے ،جس کی فروخت گزشتہ دو ماہ سے عملاً بند پڑی ہے۔ ’’امت ‘‘کوفشری میں موجود برف کے کارخانے میں کام کرنے والے جاوید نے بتایا کہ یومیہ 2لاکھ روپے کی برف ایک لانچ میں جاتی تھی ،تا ہم پابندی کے باعث لانچ مالکان نے برف لینے سے انکار کردیا ہے ،جس کے باعث ہمیں یومیہ لاکھوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماہی گیروں پر پابندی نہ ہٹائی گئی تو ہم سب بے روزگارہوجا ئیں گے،وہیں موجود محمد رفیق نامی مزدور نے بتایا کہ یہاں کام کرنے والے سیکڑوں مزدور20روپے میں ایک برف کا بلاک اتارتے ہیں ،جس سے ہر ایک کو یومیہ 5سو روپے کی دیہاڑی مل جاتی ہے ،تاہم جب سے یہ پالیسی آئی ہے ۔ہم بھوک سے مر رہے ہیں۔رفیق نے مزید بتایا کہ وہ اپنے گھر کا واحدکفیل ہے اور روزگار نہ ملنے کی وجہ سے سخت پریشانی میں مبتلا ہے ۔معلوم ہوا ہے کہ فشری میں برف کے کاروبار سے وابستہ 5ہزار افراد روزگار کمانے آتے ہیں ،لیکن دو ماہ سے کام نہ ہونے کی وجہ سے سخت پریشانی اٹھارہے ہیں۔ برف کے کاروبار سے وابستہ مزدوروں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس نئی ڈیپ سی پالیسی کو فی الفور ختم کیا جائے ۔ علاوہ ازیں فشری میں ڈیپ سی پالیسی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ،جس میں فشر مین کوآپریٹیو سوسائٹی کے چیئرمین اور فش ٹرالر ایسوسی ایشن کے رہنماؤں نے خطاب کیا ،فشری میں مچھیروں سے خطاب میں چیئرمین ایف سی ایس نے معاملے کو جلد حل کروانے اور ڈیپ سی پالیسی کو ختم کرانے کی یقین دہانی کرائی ۔مظاہرین سے خطاب میں ایسوسی ایشن کے صدر حبیب اللہ کا کہنا تھا کہ ہم اس ڈیپ فشنگ پالیسی کی مذمت کرتے ہیں ،جس نے مچھیروں سے ان کا روزگار چھین لیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر ہم نے وفاقی وزیر علی زیدی اور وزیراعلیٰ سندھ سے بھی بات کی ہے ،جہاں سے ہمیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اس پالیسی پر نظر ثانی کی جائے گی ۔

Comments (0)
Add Comment