کراچی (رپورٹ :عمران خان ) ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کے افسران کی جانب سے سوشل میڈیا پر خفیہ سرکلر اور لیٹرز کے افشانے کئی اہم آپریشن ناکام بنا دیے ہیں ۔وزیر اعظم و سپریم کورٹ کے احکامات پر منی لانڈرنگ ،حوالہ ہنڈی اور بھارتی چینلز کی ڈیوائسز کے خلاف آپریشن مکمل ناکام ہو گئے۔دونوں معاملات میں کارروائیوں کیلئے جاری احکامات پر خفیہ کارروائی کرنے کے بجائے تفصیلی سرکاری خطوط اسی روز واٹس ایپ و سوشل میڈیا پر پھیلائے ۔ماضی میں ایسے حساس نوعیت کے سرکاری مراسلے اور خط وکتابت ’’تھرو پراپرچینل ‘‘ہوتی تھی ،جس میں ڈاک اور فیکس کا استعمال کیا جاتا تھا ،تاکہ غیر متعلقہ افراد تک رسائی ممکن نہ ہوسکے۔حالیہ عرصے میں ایف آئی اے کے افسران حساس لیٹرز بھی واٹس ایپ پر ایک دوسرے کو بھیجنے لگے ہیں۔ ایف آئی اےسندھ کے افسران سے قبل ہی یہ لیٹرز منی لانڈرنگ میں ملوث و حوالہ ہنڈی مافیا تک پہنچ گئے ۔ اسی وجہ سے سندھ ،پنجاب ،بلوچستان ،خیر پختون ،اسلام آباداور گلگت بلتستان زون کی ایف آئی اے ٹیموں کو گزشتہ 2 روز کے دوران خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ایف آئی ا ے کے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ منی لانڈرنگ اور حوالہ ہنڈی میں ملوث مافیا نے لیٹرز دیکھتے ہی دفاتر بند کر کے آلات چھپا دئے ۔ کاروبار اور خود کو خفیہ ٹھکانوں پر منتقل کر دیا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے 14نومبر کو ایف آئی اے افسران سے ملاقات کے دوران ملک بھر میں منی لانڈرنگ ، حوالہ و ہنڈی مافیا کے خلاف کارروائی کر کے24نومبر تک تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا ۔ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد سے تمام زونل ڈائریکٹرز سندھ ،بلوچستان ،خیر پختون ،پنجاب و اسلام آباد کو خطوط ارسال کرکے عملی کارروائیوں کا حکم دیا گیا اور انہیں اس ضمن میں روز کم ازکم 5چھاپہ مار کارروائیوں کو ممکن بنانے کا حکم دیا تھا۔اس طرح 10روز میں پانچوں زونز کے تحت کم سے کم ایک ہزار کارروائیاں کی جاتیں۔ذرائع نے انکشاف کیا کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل بشارت محمود کے دستخط سے جاری لیٹر اگلے چند ہی گھنٹوں میں سوشل میڈیا پر پھیل گیا اور مختلف نیوز اور سوشل گروپوں سے ہوتا ہوا ہنڈی حوالہ مافیا کے ہاتھ بھی لگ گیا ۔یہ جاننے کے لئے کہ وزیر اعظم کے احکامات پر اب تک کتنی کارروائیاں کی جاچکی ہیں ، ’’امت ‘‘نے ایک سینئر ایف آئی اے افسر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ احکامات ہمیں ملنے سے پہلے ہی مافیا تک پہنچ چکے تھے۔ایسے میں کامیاب کارروائیوں کی توقع فضول ہے۔اس وقت جو صورتحال ہے ،اس میں ایف آئی اے حکام کو ایک واضح پالیسی بنانی ہوگی کہ کس سطح کے لیٹرز واٹس ایپ کے ذریعے ہیڈ کوارٹرسے زونل افسران کو ارسال کئے جاسکتے ہیں اور کس سطح کے افسران ایسے لیٹرز کا تبادلہ کرسکتے ہیں ۔ اگر صرف ڈائریکٹر سطح کے افسران کو ہی حساس لیٹرز واٹس ایپ کے ذریعے ایک دوسرے کو بھیجنے کی پالیسی بنی تو خفیہ خطوط کے افشا کاامکان بہت کم ہوگا۔اس وقت یہ صورتحال ہے کہ ڈائریکٹرز کے علاوہ ،ڈپٹی ڈائریکٹرز ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر و انسپکٹرز سطح کے افسران کو بھی سرکاری آفیشل لیٹرز سوشل میڈیا کے ذریعے مل جاتے ہیں اور لمحوں میں انہیں لیک بھی کردیا جاتا ہے ،جس کا تمام تر فائدہ ایسے جرائم پیشہ افراد اٹھاتے ہیں ،جن کے خلاف کارروائی کے لئے احکامات جاری ہوتے ہیں ۔ایف آئی اے افسر کے بقول اس سے قبل بھارتی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان میں چلائی جانے والی ڈی ٹی ایچ ڈیوائسز کے خلاف آپریشن کیلئے سپریم کورٹ نے احکام جاری کئے تھے۔ان ڈیوائسز کے ذریعے پاکستان بھر میں بھارتی چینل چلائے جاتے ہیں اور اس کے عوض سالانہ اربوں کازرمبادلہ منی لانڈرنگ کے ذریعے 5بڑی بھارتی کمپنیوں کو منتقل کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے متعلق سرکاری خطوط بھی گھنٹوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئے تھے ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ایف آئی اے اور کسٹم کی مشترکہ ٹیمیں کارروائیوں کے لئے مارکیٹوں میں گئی تھیں تو زیادہ تر کارروائیوں میں ان کے ہاتھ کچھ نہیں آسکا تھا اور یہ آپریشن بھی ناکامی سے دوچار ہورہا ہے ۔