اسلام آباد(رپورٹ: اخترصدیقی )صوبوں میں پانی کی تقسیم کا تنازعہ حل کرنے کے لیے پہلا اجلاس ناکام ہوگیاجس کی وجہ سے پانی کی تقسیم کا 1991کامعاہدہ خطرے میں پڑ گیا،معاہدہ ختم ہونے سے پنجاب کوسالانہ 400ارب روپے کانقصان برداشت کرناپڑسکتاہے ۔اور پنجاب کو4ملین ایکڑفٹ پانی سے بھی محروم ہوناپڑیگا۔ذرائع نے روزنامہ امت کوبتایاہے کہ سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل آفس میں صوبوں میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے بنائی گئی تیکنیکی کمیٹی کااجلاس ہواہے۔جس میں چیئرمین ارساکمال احمد،دیگر ممبران راؤارشاد،شیرزمان ،رقیب خان ،فیصل واڈاوفاقی وزیرآبی وسائل ،سیکرٹری شمائل احمدخواجہ سمیت دیگرافراد نے شرکت کی ۔ اس اجلاس سے قبل ہی وزیراعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ نے اچانک شمولیت کاعندیہ دے کر معاملات خراب کردیئے اور اٹارنی جنرل کواجلاس ملتوی کرناپڑا،سندھ حکومت کی جانب سے چیف انجنیئر ارسانے اجلاس میں شرکت کرناتھی اور اجلاس کاوقت تین بجے دن مقررکیاگیاتھاتاہم اتوار کودن گیارہ بجے حکومت سندھ کی جانب سے اٹارنی جنرل آفس کواطلاع دی گئی کہ اجلاس میں سندھ کی جانب سے چیف انجنیئر کی بجائے وزیراعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ خود ذاتی طورپر شرکت کریں گے جس پر حکومت پنجاب کوبتایاگیاکہ اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ خود شرکت کررہے ہیں جس پر حکومت پنجاب کے وزیرمحسن لغاری نے اعتراض کردیااور اٹارنی جنرل آفس کونوٹس ارسال کیاکہ وزیراعلیٰ سندھ اس اجلاس میں کیسے شرکت کرسکتے ہیں کیونکہ اجلاس توتیکنکی معاملات بارے بلایاگیاہے اس میں سندھ وزیراعلیٰ کاکوئی تعلق نہیں بنتاہے اگر وہ شرکت کریں گے توپھر وزیراعلیٰ پنجاب بھی شرکت کریں گے ۔حکومت پنجاب کے احتجاج پر اٹارنی جنرل پاکستان نے اجلاس ملتوی کردیاذرائع کامزیدکہناہے کہ ارسا۱۹۹۱پیرانمبردوکے تحت پانی کی سالانہ تقسیم 114ملین ایکڑفٹ صوبوں میں کی جاناقرار دی گئی تھی جبکہ پیر انمبرچار میں بتایاگیاہے کہ 102ملین ایکڑفٹ پانی تقسیم ہوگاجبکہ 12ملین فٹ پانی ڈیموں کے لیے استعمال ہوگااب جبکہ ڈیمزنہیں بنائے گئے ہیں تواس لحاظ سے پانی کی تقسیم 114ملین ایکڑفٹ کے حساب سے کی جارہی تھی ۔جبکہ دوسری جانب 2003میں حکومت پاکستان نے صوبوں میں پانی کے معاملا ت حل کرنے کے لیے ایک فارمولاجس نام تھری ٹییر(three tear)فارمولابنایاگیاتھاجس میں یہ قرار دیاگیاتھاکہ جب تک ڈیمزنہیں بن جاتے ہیں اس وقت تک صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم دستیاب پانی کے برابر تقسیم سے کی جائیگی اورارسا1991کے پیرازکونہیں دیکھاجائیگاجتناپانی دستیاب ہوگاوہ سب کاسب صوبوں میں برابر تقسیم کردیاجائیگا۔اس پر سندھ حکومت کوتحفظات ہیں اور وہ اس فارمولے کی بجائے طے شدہ معاہدے کے تحت ہی پانی مانگتاہے ۔جبکہ صورت حال یہ ہے کہ سندہ کی تجاویز مانی گیئں تو پنجاب کو 40لاکھ ایکڑ فٹ پانی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔پانی کے حصص میں کٹوتی سے پنجاب کی معیشت کو سالانہ 4 سو ارب روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔ سندہ پانی کی تقسیم کے معاہدے کے پیرا 2 پر عمل درآمد کرانا چاہتا ہے۔ارسا ’دستیاب پانی ہے برابر تقسیم‘ کے فارمولے پر عمل کر رہا ہے۔سندہ کے پی کے اور بلوچستان کو پانی کی کمی کا استثنیٰ بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔استثنیٰ ختم کرنے سے کے پی کے اور بلوچستان کے لیے پانی کی کمی 50 فی صد تک ہو جائے گی اس حوالے سے معاملات حل کرنے کے لیے اگلے ماہ اجلا س بھی بلایاگیاہے ۔ 4 دسمبر کو ہونے والے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شرکت کریں گے۔پنجاب کاموقف ہے کہ تھری ٹیئر فارمولا اپنایا جائے، صوبہ سندہ کا موقف ہے کہ کے پی کے اور بلوچستان کو پانی کی کمی کا استثنیٰ بھی ختم کردیا جائے۔ارسا اتھارٹی کا فیصلہ ہے کہ پیرا ٹو پر عمل اس صورت میں ہو سکتا تھا جب اضافی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنائے جاتے،حکومتوں کی غفلت کی سزا عوام کو نہیں دی جاسکتی ہے ۔