اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )سپریم کورٹ نے کٹاس راج اور زمین سے پانی نکالنے کے خلاف ازخود نوٹس کیس میں سیمنٹ فیکٹری کو 10 کروڑ روپے ڈیم فنڈ میں جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے معاملہ نمٹادیا۔چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کٹاس راج اور زمین سے پانی نکالنے پر سمینٹ فیکٹری کے خلاف ازخود نوٹس کیس پر سماعت کی۔دوران سماعت عدالتی حکم پر کمیٹی نے رپورٹ پیش کی، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سیمنٹ فیکٹری کا پانی بند کر رہے ہیں۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈی جی سیمنٹ والے کہتے ہیں کہ ہم نے پانی بارش سے جمع کیا، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق ڈی جی سیمنٹ نے ٹیوب ویل اور زمین سے پانی نکالا۔جس پر عدالت نے ڈی جی سیمنٹ کو ٹیوب ویل سے پانی نکالنے سے روکتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سیمنٹ فیکٹریاں زمین سے پانی نہیں لیں گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اب تک ڈی جی سیمنٹ نے جو پانی استعمال کیا اس کے لیے جرمانہ ادا کرنا ہوگا اور عدالت عظمیٰ نے اس مد میں ڈی جی سیمنٹ کو10کروڑ روپے ڈیم فنڈ میں جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔دریں اثناء سپریم کورٹ نے زیر زمین پانی نکال کر منرل واٹر کے نام پر فروخت کرنے والی 11 کمپنیوں کے مالکان کو آج (منگل) کی صبح عدالت میں طلب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ لوگ پیش نہ ہوئے تو ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈلوا دئیے جائیں گے۔جبکہ عدالت میں پیش کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ زمین سے نکالے گئے پانی میں فلورائیڈ اور آرسینک موجود ہے اور ایک ایم بی اے پاس ملازم پلانٹ بھی آپریٹ کرتا اور لیبارٹری کو بھی سنبھالتا ہے۔زیادہ تر کمپنیوں کے پاس مستندلیبارٹریزتک نہیں ہیں ۔جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے منرل واٹر کمپنیوں کے وکیل اعتزازاحسن کی جانب سے کیس ملتوی کرنے کی درخواست مستردکرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں میں سمجھوتہ کر کے برطانیہ کے دورے پر چلا جاوٴں ؟ کیا وہ لوگ معافی کے قابل ہیں جنہوں نے اس قوم کو گندا پانی پلایا؟پیر کو لاہور سپریم کورٹ رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے زیر زمین پانی نکال کر فروخت کرنے کے خلاف لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کی۔ڈائریکٹر جنرل ادارہ برائے تحفظ ماحولیات فرزانہ الطاف شاہ اور ماہر ماحولیات ڈاکٹر محمد احسن صدیقی نے پانی سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں بتایا گیا کہ لاہور اور شیخوپورہ سمیت بڑے شہروں میں 11 صنعتیں روزانہ کی بنیاد پر 9 کروڑ لیٹر پانی زمین سے نکال رہی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمپنیوں کے پاس پانی کو جانچنے کے لیے سرٹیفائیڈ لیبارٹریز نہیں ہیں نہ ہی ان کے پاس طریقہ موجود ہے جس سے پانی کو جانچا جائے۔رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ صرف قرشی کمپنی کے پاس سرٹیفائیڈ لیبارٹری ہے جبکہ دیگر کمپنیز کو معلوم ہی نہیں کہ زمین سے نکالے گئے پانی میں کتنے اقسام کی اور کون کونسی معدنیات موجود ہیں۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ زمین سے نکالے گئے پانی میں فلورائیڈ اور آرسینک موجود ہے اور ایک ایم بی اے پاس ملازم پلانٹ بھی آپریٹ کرتا اور لیبارٹری کو بھی سنبھالتا ہے۔جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ کمپنیاں اربوں روپے کما رہی ہیں لیکن ان کے پاس لیبارٹریز تک نہیں ہیں۔ سماعت میں کوکا کولا کمپنی کے جنرل منیجر (جی ایم ) جون ہیلیم سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے رات بھی ملاقات کی ہے اور کمیٹی کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔سماعت میں منرل واٹر کمپنی کے وکیل اعتزاز احسن نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ آپ برطانیہ کے دورے کے بعد آ کر یہ کیس سن لیں۔جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں میں سمجھوتہ کر کے برطانیہ کے دورے پر چلا جاؤں ؟ کیا وہ لوگ معافی کے قابل ہیں جنہوں نے اس قوم کو گندا پانی پلایا؟رپورٹ کے حوالے سے چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی عدالت کو بتائیں گے کہ غیر معیاری پانی کی فروخت کرنے پر کیا فوجداری کارروائی بنتی ہے؟چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمپنیز پھر غیر ملکی ماہرین کو بلا کر آپ کی رپورٹ مسترد کروا دیں گی، پاکستان کے ایماندار محب وطن اور قابل ماہرین ان لوگوں کے لیے کوئی اہمیت کے حامل نہیں، ملک کو لوٹنے کا طریقہ بنایا ہوا ہے۔بعد ازاں چیف جسٹس نے اعتزاز احسن کی جانب سے مقدمے کی سماعت 30 نومبر تک ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کر دی اور کمپنیوں کے مالکان کو آج منگل کی صبح طلب کر لیا۔