اسلام آباد/راولپنڈی/واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک / خبرنگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے الزامات مسترد کرتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کوقربانی کا بکرا بنانے کے بجائے امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں پر غور کرنے سمیت تاریخ کو درست کرے۔ اسلام آباد جیسی قربانی کسی اتحادی نے نہیں دی۔ ادھر واشنگٹن میں امریکی صدر کی ہرزہ سرائی دوسرے روز بھی جاری رہی۔ فوکس نیوز کو انٹرویو کے بعد پیر کو یکے بعد دیگرے دو ٹوئٹ میں ٹرمپ نے کہا کہ اب پاکستان کو مزید اربوں ڈالر نہیں دیں گے، کیونکہ وہ پیسے لینے کے باوجود ہمارے لیے کام نہیں کرتا جس کی واضح مثال اسامہ بن لادن کیس ہے جبکہ افغانستان ایک اور مثال بن رہا ہے۔ امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ان کئی ممالک میں سے ایک ہے جس نے امریکہ سے لیا مگر بدلے میں کچھ نہیں دیا۔ اس لئے امداد بند کردی۔ اسامہ کو پہلے ہی پکڑا جانا چاہیے تھا۔ میں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے سے پہلے اپنی کتاب میں اس کا ذکر بھی کیا تھا۔ لیکن صدر کلنٹن اس معاملے میں چوک گئے۔وزیرِ اعظم عمران خان نے ان ٹوئٹس کا جواب بھی فوری طور پر دیا اور کہا کہ امریکی صدر کے غلط بیانات پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں، ہم نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا خمیازہ جانوں کے ضیاع اور معاشی عدم استحکام کی شکل میں بھگتا ہے۔ اب وہی کرینگے۔ جو ملک و قوم کیلئے بہتر ہوگا۔ قبل ازیں وزیرِ اعظم عمران خان نے امریکی صدر کے پاکستان مخالف بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ستمبر 2001کے حملے میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا لیکن پھر بھی پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 75ہزار جانیں قربان کیں اور معیشت کو ایک سو 23ارب ڈالر کا نقصان بھی ہوا جبکہ امریکی امداد صرف 20ارب ڈالر تھی۔ وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے قبائلی علاقے تباہ ہوئے جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، دہشت گردی کے خلاف اس جنگ نے پاکستانی عوام کی زندگیوں پر بدترین اثرات مرتب کیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان زمینی اور فضائی مواصلاتی راستوں تک مفت رسائی فراہم کرتا رہا، کیا ڈونلڈ ٹرمپ کسی ایسے اتحادی کا نام بتاسکتے ہیں جس نے ایسی قربانیاں دی ہوں؟ اپنی ناکامیوں پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے امریکا اپنی کارکردگی کا ایک سنجیدہ جائزہ لے کہ آخر کیوں ایک لاکھ 40ہزار نیٹو افواج، ڈھائی لاکھ افغان فوج اور افغانستان میں جنگ میں ایک کھرب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود طالبان پہلے سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ خیال رہے کہ ایک روز قبل امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے لیے امریکی امداد روکے جانے کا دفاع کیا اور کہا کہ پاکستان نے اب تک امریکا کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ٹرمپ نے دعوی کیا کہ امریکا پاکستان کو سالانہ کی بنیاد پر ایک ارب 30کروڑ ڈالر امداد دیتا رہا ہے، جو انہیں اب بالکل نہیں دی جائے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے انٹرویو پر وزیرِ انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی سخت ردِ عمل کا اظہار کیا۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا یہ بیان اُن پاکستانی لیڈروں کے لیے ایک سبق ہے، جو نائن الیون کے بعد سے امریکا کی خوشامد میں لگے رہے،پاکستان کے امریکہ کیساتھ تعاون کی فہرست طویل ہے۔ شیریں مزاری کا مزید کہنا تھا کہ ’چاہے چین ہو یا ایران، انھیں محدود کرنے اور تنہا کرنے کی امریکی پالیسی پاکستان کے اسٹریٹیجک مفادات سے مطابقت نہیں رکھتی۔وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نےکہا کہ نئے پاکستان میں اب دوسرے ڈومور کریں،ہم پہلے ہی بہت کرچکے ہیں، کسی عالمی فورم پر ہماری قرباینوں کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ دریں اثنا پاکستان کی حکمت عملی پر غور کرنے کیلئے دفتر خارجہ میں اعلیٰ سطح اجلاس ہوا۔ذرائع کے مطابق دفتر خارجہ امریکی صدر کے بیان پر باضابطہ ردعمل دے گا۔