کابل میں محفل میلاد پر خودکش حملہ-50 شہید

پشاور(نمائندہ خصوصی) افغان دارالحکومت میں جشن میلاد البنیؐ کےسلسلے میں ہونے والی محفل میلاد کے دوران ایک خود کش بمبار نے علما و مشائخ کے درمیان پہنچ کر خود کو اڑا دیا۔حملے کے نتیجے میں متعدد علما سمیت 50 سے زائد افراد شہید ،جبکہ 100 کے قریب افراد شدید زخمی ہو گئے ہیں ۔ 40 سے زائد زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے ۔ کسی گروپ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ۔افغان طالبان نے حملے کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ثابت ہو گیا کہ دارالحکومت میں بھی افغان حکومت کی رٹ ختم ہو گئی ہے۔تفصیلات کے مطابق منگل کو کابل میں ایئر پورٹ روڈ پر واقع اورانوس نامی شادی ہال میں جشن میلاد النبیؐ کے حوالے سے میلاد کی محفل ہوئی ۔اس موقع پر ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔تقریب کے آغاز کے کچھ دیر بعد ہی جب نعت خوان حضرات بارگاہ نبوی میں ہدیہ سلام پیش کر رہے تھے۔ ایک خود کش بمبار نے علما کرام اور مشائخ کے درمیان آ کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔حملے کے نتیجے میں متعدد علما ، مشائخ اور شہریوں سمیت 50سے زائد افراد شہید ہو گئے اور 100سے زائد زخمی ہو گئے ، جنہیں طبی امداد کیلئے مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ۔ بیشتر زخمیوں کی حالت نازک ہونے کی وجہ سے اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش اور کابل پولیس کے ترجمان باصر مجاہد کے مطابق تقریب کے دوران شریک علما کی تعداد سیکڑوں میں تھی ۔ زخمیوں کی منتقلی کیلئے 30سے زائد ایمبولینسیں پہنچیں ۔حملے کے بعد افغان صحافیوں کی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں اسٹیج کے گرد بیشتر شہدا کے ٹکڑے بکھرے پڑے ہیں اور کچھ افراد نے جان بچانے کی کوشش میں فرار کے وقت میزوں پر گر کر دم توڑا۔ افغان وزارت صحت کے ترجمان وحید مجروح نے ایک ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا ہے کہ حملے میں زخمی ہونے والوں میں سے ایک تہائی سے زائد کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے اور اس کے نتیجے میں شہدا کی تعداد میں اضافے کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں ۔عالمی میڈیا کے مطابق دنیا میں نبی پاکؐ کی میلاد کی تقریبات منائی جا رہی ہیں تاہم انتہا پسند اس کو بھی گستاخی قرار دیتے ہیں ۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق خودکش بمبار پہلے سے ہی تقریب میں موجو د تھاجس کی وجہ سے تقریب کے درمیان میں خود کو اڑایا ۔ سانحہ کی کسی گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ افغان طالبان نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت دار الحکومت میں ایئر پورٹ روڈجیسے اہم اور حساس ترین علاقے میں بھی اپنی رٹ کھو چکی ہے۔ترجمان طالبان نے دھماکے میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ امیر طالبان مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ ایک سال قبل ہی خود کش حملوں پر پابندی لگا چکے ہیں۔طالبان کو عام شہریوں کی موجودگی کے مقامات پر حملوں کی اجازت نہیں ہے ۔عالمی میڈیا کے مطابق افغان جنگ کے دوران ایئر پورٹ روڈ پر واقع اورا نوس شادی ہال پہلے بھی کئی بار دہشت گردی کا نشانہ بن چکا ہے ۔ 2012میں اسی ہال کے باہر غیر ملکیوں کی ایک بس کو بھی دھماکے سے اڑا گیا تھا ۔منگل کو ہونے والا دھماکا2ماہ کے دوران ہونے والا دہشت گردی کا خطرناک واقعہ ہے ۔ 2ماہ قبل کابل میں شیعہ حضرات میں ایک مقبول جم کے باہر دھماکا کیا گیا تھا ، جس کے نتیجے میں متعدد افراد جاں بحق ہو گئے تھے ۔گزشتہ ماہ پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے موقع پر بھی کئی پر تشدد واقعات میں درجنوں افراد مارے گئے تھے ۔2001میں اقتدار کے خاتمے کے بعد سے امریکی پشت پناہی سے بننے والی افغان حکومتوں کے مقابلے میں طالبان آج افغانستان کے زیادہ علاقوں پر قابض ہیں۔ طالبان کے تیزی سے عروج نے عالمی قوتوں کی افغانستان میں امن کے قیام کی کوششوں کو متاثر کر دیا ہے۔ کابل میں 10برس تک سفیر کے فرائض انجام دینے والے زلمے خلیل زاد کو ٹرمپ انتظامیہ نے بھی افغانستان کیلئے اپنا ایلچی بنا رکھا ہے ۔ زلمے خلیل کے مطابق اپریل 2019میں صدارتی الیکشن سے قبل امریکہ اور طالبان امن معاہدے تک پہنچ جائیں گے۔عالمی میڈیا کے مطابق داعش جاری مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلئے کوشاں ہے ۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment