کراچی (ارشاد کھوکھر) وفاقی حکومت نےقلت آب کے باعث گندم کی بوائی کم ہونے کےخدشات اور عالمی منڈی میں نرخ میں اضافے کے رحجان کے پیش نظرگندم مر حلہ واربرآمدکرنے کا فیصلہ کیاہے ۔ پہلے مرحلے میں سندھ ، پنجاب اور پاسکو کو 5لاکھ ٹن برآمد کرنے کی اجازت ہوگی ۔ ضرورت سے تقریباً 37لاکھ ٹن گندم کے ذخائر پاسکو کو 2لاکھ ٹن گندم ہولسٹری فیڈکے لئے جاری کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔باخبر ذرائع کے مطابق ”اپسا“ ربیع کے رواں سیزن کے لئے نہری پانی کی 38 فیصد قلت کا اعلان کرچکی ہے ،تاہم بارشیں کم ہونے اور دیگر وجوہات کے پیش نظر نہری پانی کی قلت 50سے 60 فیصد تک بھی جاسکتی ہے ۔اس صورتحال میں دیگر فصلوں کے علاوہ گندم کی پیداوار متاثر ہونے کے خدشات موجود ہیں ۔اس سلسلے میں حکومت سندھ واضح کرچکی ہے کہ آبادگار نہری پانی ملنے کی امید پر گندم کی بوائی نہ کریں اور صرف ایسی زمینوں پر گندم کی بوائی کریں ،جہاں زیر زمین میٹھا پانی دستیاب ہو ،ذرائع کے مطابق اس وقت حکومت کے پاس ضروریات سے تقریباً 37 لاکھ ٹن گندم کے زائد ذخائر موجود ہیں جن میں سے حکومت پنجاب کے پاس 25۔ سندھ کے پاس 5 اور پاسکو کے پاس تقریباً 7لاکھ ٹن موجود ہے ۔ذرائع کا کہناہے کہ اس مرتبہ یوکرائن۔ روس اور دیگر ممالک میں گندم کی پیداوار کم ہونے کے باعث عالمی منڈی میں نرخوں میں اضافے کا رحجان ہے اس وقت بھی فی ٹن گندم کے نرخ تقریباً 225 ڈالر یعنی 30ہزار روپے فی ٹن ہیں ۔ 15جنوری 2019 کے بعد عالمی منڈی کی صورتحال واضح ہوجائے گی ،جس میں قیمتیں بڑھنے کا امکان ہے ،جبکہ گزشتہ سیزن کے مقابلے میں رواں سیزن کے دوران ڈالر کی قدر 134روپے تک پہنچ جانے کے باعث برآمد کنندگان کی دلچسپی بھی بڑھ گئی ہے ۔ اس صورتحال میں ریٹ کے بغیر ہی پنجاب سے بڑے پیمانے پرگندم افغانستان جارہی ہے۔ ذرائع کے مطابق کہ وفاقی حکومت مذکورہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے ،جس میں پہلی ترجیح ملک کی ضروریات کو پورا کرنا ہے ۔دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع تک یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ملک میں گندم کی کتنی اراضی پر بوائی ہوئی جوکہ گزشتہ سیزن کے مقابلے میں کتنی ہے کیونکہ پانی کم ملنے سے فی ایکڑ پیداوار بھی کم ہوجاتی ہے اس لئے ای سی سی نے فی الحال 5لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،جن میں سندھ اور پنجاب دو دو اورپاسکو ایک لاکھ ٹن گندم برآمد کر سکے گا ،تاہم اس ضمن میں برآمد گندم کے لئے قیمت اجرا وغیرہ کے امور طے ہونا باقی ہیں ،جبکہ مزید گندم برآمد کرنے کے معاملے پر دسمبر کے آخریا جنوری کےآغاز میں ہی غور کیا جائے گا ۔