تحریک لبیک کو دبانے سے انتہا پسندی کی نئی لہر کا خدشہ

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) دیو بندی مکتب فکر کے بعد کیا بریلوی مکتب فکر کو بھی انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔؟ تحریک لبیک کے خلاف بڑے پیمانے پر ملک گیر آپریشن کے بعد یہ خدشہ سانپ کی طرح سر اٹھا رہا ہے۔ اس آپریشن میں نہ صرف لبیک قیادت اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بلکہ رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے غیر متنازعہ سربراہ اور انتہائی معتدل سوچ رکھنے والے مفتی منیب الرحمان کو بھی نظربند کر دیا گیا۔ اشتعال زمین کی کوکھ سے نہیں پھوٹتا۔ غیر ضروری سختی اور ریاستی طاقت کے بے جا استعمال سے ابھرتا ہے۔ تحریک لبیک کے کارکن الزام لگاتے ہیں کہ ان کے خلاف آپریشن میں قادیانی پولیس افسر استعمال کئے گئے ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ الزام ہے۔ اس کی تحقیق ہونی چاہئے۔ اگر یہ درست ہے تو یہ ملک کو ایک اور خانہ جنگی میں دھکیلنے کی سازش ہے۔ تحریک لبیک کے بڑوں سے بے شک کچھ غلطیاں ہوئی ہوں گی، لیکن یہ غلطیاں ان غلطیوں کے مقابلے میں پرکاہ کے برابر بھی نہیں ہیں، جن کے مرتکب مشرف اور ان کے ساتھی ہوئے تھے پھر بھی انہیں ہر طرح کے قانونی گرفت سے بچا لیا گیا۔ انہوں نے گیارہ برس تک اس قوم کے ہزاروں بچوں اور بچیوں کا قتل کیا۔ انہیں گرفتار کر کے عقوبت خانوں میں ڈالا۔ پانچ پانچ سو ڈالر میں بندے بیچے اور رقم ہڑپ کر لی۔ جنہوں نے آئین سے دو بار غداری کی۔ چیف جسٹس کو حراست میں لیا۔ سپریم کورٹ پر قبضہ کیا اور وکلا تحریک کو کچلنے کے لئے بارہ مئی جیسا سانحہ برپا کیا۔ وہ سانحہ جو اس ملک کے دامن پر ایسا گندہ داغ ہے، جسے دھونے کے لئے کوئی آمادہ نہیں۔ سپریم کورٹ بھی نہیں۔ جنہوں نے الطاف حسین اور اس کے دہشت گردوں کو ریاستی تحفظ دیا۔ اربوں روپے کی کرپشن کی چھوٹ دی، بلکہ حوصلہ افزائی کی۔ اپنے مخالفین کو قتل اور اغوا کرنے کی اجازت دی اور ناجائز مطالبے خوشی سے تسلیم کئے۔ تحریک لبیک کسی ذاتی یا سیاسی مفاد کے لئے میدان میں نہیں اتری تھی۔ وہ صرف رسول الله کے ناموس کی حفاظت کے لئے سڑکوں پر آئی تھی۔ اس سے اگر کوئی غلطی ہوئی تھی تو ناموس رسالت کے صدقے معاف کر دی جاتی۔ وہ ایک ایسے فیصلے کی حفاظت کا مطالبہ کر رہی تھی، جو ہائی کورٹ نے دیا تھا، کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ برسوں تک اس فیصلے کو لٹکا کر مخصوص سیاسی اور معاشی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے پر نظرثانی کے لئے سپریم کورٹ کی کارروائی قانونی لحاظ سے کتنی ہی درست ہو۔ شرعی لحاظ سے غلطیوں سے لبریز ہے۔ پہلی بات یہ کہ سپریم کورٹ ہو یا کوئی اور عدالت جج آئین اور تعزیرات پاکستان پر عبور رکھتا ہے، شریعت پر نہیں۔ نہ شرعی علوم اور فقہ پر اسے کوئی دسترس ہے۔ تنازعہ تب پیدا ہوتا ہے جب عدالت شرعی معاملات میں شرعی قانون سے مدد لینے کے بجائے تعزیرات پاکستان کا سہارا لیتی ہے۔ ایک ایسے قانون کا جس کی بنیاد انگریز کا بنایا ہوا تعزیرات ہند ہے اور جو سراسر سیکولر قوانین کا مجموعہ ہے۔ اسی لئے انگریز کے دور سے یہ مسئلہ چلا آ رہا ہے کہ کوئی بدبخت گستاخی رسول کا مرتکب ہوتا ہے تو قوم شرعی قوانین کے مطابق اس پر مقدمہ چلانا چاہتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ گستاخی کا عمل شرعی قوانین کی ذیل میں آتا ہے۔ تعزیرات ہند یا پاکستان کے دائرے میں نہیں۔ لیکن حکومتیں اپنے بنائے قانون کے تحت مقدمہ چلانے پر مصر ہوتی ہے۔ اس قانون میں سقم کے باعث یا کسی دباؤ کے سبب مجرم چھوٹ جاتے ہیں اور عوام فیصلہ مسترد کر کے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ ناموس رسالت پر فدا ہونے والے تمام غازیان کرام کیوں پیدا ہوئے؟، کیونکہ دنیاوی قانون نے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے تھے۔ یہی صورت حال آج درپیش ہے۔ تعزیرات ہند اور تعزیرات پاکستان کمزور قانون ہیں۔ یہ صرف حکومت کا اقتدار قائم رکھنے کے لئے بنائے گئے۔ الله رب العزت کے احکامات کی پاسداری کے لئے نہیں۔ اسی لئے انسان کے بنائے اس قانون میں بے شمار سقم ہیں۔ چنانچہ جب بھی ایسا کوئی جرم کسی سے سرزد ہو، جس کا تعلق عوام کے مذہبی عقیدے اور ایمان سے ہو۔ تو اس پر مقدمہ شرعی قوانین کی روشنی میں چلایا جانا چاہئے، لیکن وہاں یہ قانون اسے بچا لیتا ہے۔ یہاں یہ اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ ملک میں چونکہ ایک ہی قانون رائج ہے۔ لہٰذا کسی مخصوص مقدمے کی سماعت کسی دوسرے قانون کے تحت کرنا جائز نہیں۔ خواہ وہ شرعی قانون ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آئین کی دفعہ 2Aکے تحت اصل اقتدار الله رب العزت کا ہے اور حکومت کے پاس موجود اقتدار اسی رب کی امانت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر رائج الوقت قانون کا کوئی جزو کسی شرعی حکم سے ٹکراتا ہے تو شرعی حکم کو ترجیح حاصل ہو گی۔ یہ ہم نہیں کہتے، آئین پاکستان کہتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ مقدمے کی سماعت چاہے تعزیرات پاکستان کے تحت ہی ہو۔ لیکن رہنمائی کے لئے عدالت ملک کے مقتدر علما اور مفتیان کرام پر مشتمل ایک کمیٹی بنا سکتی تھی، جو مقدمے کے شرعی پہلوؤں اور احکامات سے عدالت کو آگاہ کرتی اور مناسب رہنمائی فرماتی۔ ہمیں افسوس ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ان دونوں نکات کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ بہتر تو یہ تھا کہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر سپریم کورٹ علما کی ایک مشاورتی کمیٹی بناتی اور ان سے رائے طلب کرتی۔ آخر اور بہت سے مقدمات میں بھی تو عدالت اپنے قانونی معاون مقرر کرتی ہے۔ ان سے رائے لیتی ہے اور اسے اہمیت دیتی ہے پھر اتنے حساس اور اہم مقدمے میں یہ راستہ اختیار کیوں نہیں کیا گیا ؟۔ ملک میں ایسے بریلوی علما کی کمی نہیں ہے، جو معتدل بھی ہیں اور شرعی علوم کے ماہر بھی۔ حق گو بھی ہیں اور حق شناس بھی۔ دیو بندی علما کو تو سب نے مل کر سائیڈ لائن کر دیا ہے۔ انہیں نہ بلاتے۔ بریلوی اور شیعہ علما ہی کو بلا لیتے اور ملعونہ آسیہ کا مقدمہ ان کے سامنے رکھ کر رائے طلب کر لیتے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس معاملے میں ممتاز قادری کی شہادت جیسے بڑے واقعے کو بھی ملحوظ نہیں رکھا گیا، جس کے بطن سے تحریک لبیک نے جنم لیا تھا۔ ملعونہ آسیہ کے حوالے سے سپریم کورٹ اپنے فیصلے کی درستگی پر کتنا ہی اصرار کرے۔ عوام کی نظر میں یہ متنازعہ ہے اور چونکہ اس معاملے کا تعلق براہ راست عوام کے ایمان اور عقیدے سے ہے۔ اس لئے لبیک کے خلاف گرینڈ آپریشن سے یہ تنازعہ ختم نہیں ہو گا، بلکہ خطرہ ہے کہ عوامی ردعمل اپنے اظہار کے لئے کوئی اور راستہ اختیار نہ کر لے۔ اسی خدشے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دیوبندی مکتب فکر کے بعد کیا بریلوے مکتب فکر کو بھی انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے؟، الله نہ کرے کہ ایسا ہو۔ ایسا ہوا تو یہ اس ملک کو آگ میں دھکیلنے کے مترادف ہو گا۔

Comments (0)
Add Comment