امدادی کانفرنس میں غنی حکومت کو مشکلات کا سامنا

پشاور (رپورٹ:محمد قاسم)افغانستان میں ہونے والی 2روزہ عالمی کانفرنس جنیوا میں شروع ہوگئی ہے۔عالمی اداروں کی جانب سے طالبان قیدیوں کی زیر حراست شہادتوں ، تشدد اور کرپشن کی وجہ سے اب بیشتر ممالک افغانستان کی تعمیر نو کے لئے صدر اشرف غنی حکومت کی جھولی میں مزید ڈالر ڈالنے سے گریزاں ہیں۔ روس نے افغانستان کے معاملے پر ایک اور عالمی کانفرنس کی میزبانی کی تیاری شروع کر دی ہے۔ کانفرنس میں امریکی نمائندوں کی شرکت یقینی بنانے کیلئے روس و طالبان نے رابطوں کا آغاز کر دیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی زیر نگرانی سوئٹزر لینڈ کے دارالحکومت جنیوا میں 2روزہ عالمی کانفرنس منگل کو شروع ہو گئی ہے، جس میں 35ممالک کے نمائندے اور 27ممالک کے وزرا خزانہ شرکت کر رہے ہیں۔ کانفرنس کا مقصد افغانستان کی تعمیر نو کیلئے 2016میں کئے گئے وعدوں پر تفصیلی غور و خوض کرنا ہے ۔کانفرنس میں افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بھی شریک ہیں ۔افغان صدر اشرف غنی نے کانفرنس سے خطاب میں طالبان پر کابل حکومت سے مذاکرات کیلئے دباؤ ڈالنے کی اپیل کی اور دنیا سے گلہ کیا کہ اس نے2016میں جنیوا کانفرنس میں16ارب ڈالر امداد کا وعدہ اب تک پورا نہیں کیا ، اسی وجہ سے افغان سیکورٹی اداروں کو مشکل کا سامنا ہے۔’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق دنیا کے بیشتر ممالک نے غنی حکومت کو مزید مالی مدد دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ غنی حکومت عوام کا معیار زندگی بلند کرنے میں ناکام ہو گئی جبکہ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی عالمی برادری کی سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا ، اسی وجہ سے انہیں مزید امداد دینے میں دشواری کا سامنا ہے۔ریڈ کراس نے شکایت کی ہے کہ افغان حکومت جیلوں میں طالبان قیدیوں کی زیر حراست شہادتوں،تشدد،سہولیات نہ دینے کی وجہ سے افغان طالبان نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریڈ کراس سے معاہدہ ختم کر دیا ہے۔2ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد قطر میں طالبان نے مذاکرات کے بعد معاہدہ دوبارہ بحال کیا۔ ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ افغان حکومت عالمی برادری سے کئے گئے وعدے نبھانے میں ناکام رہی ۔پل چرخی و بگرام میں قید اہم کمانڈروں تک انٹرنیشنل ریڈ کراس کو رسائی نہیں دی گئی ۔طالبان نے سوئٹزرلینڈ میں جاری کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اجتماعات سے کوئی نتائج نہیں نکلیں گے ۔ ماضی میں عالمی برادری کی فراہم کی گئی رقوم بھی کرپشن کی نذر ہوئی۔حالیہ مہینوں میں بھی ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور ان کو اب تک افغان حکومت سے مدد نہیں ملی،افغان حکومت کو امداد دینا کرپشن کو فروغ دینے کے مترادف ہوگا ۔طالبان نے کہا کہ 2016 میں دی گئی امداد عوام پر خرچ ہوتی تو حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں افیون کی کاشت نہ بڑھتی۔مغربی ،شمالی افغانستان اور جنوب مشرقی افغانستان کے بعض علاقوں میں طالبان کے کنٹرول کی وجہ سے افیون کی کاشت میں کمی ہوئی ہے اور طالبان کے زرعی کمیشن نے اس کے بدلے میں افغان عوام کو زعفران کاشت کرنے کیلئے بیج دیے ہیں جس کے خاطر خواہ نتائج نکلے ہیں۔ ادھر روس نےافغانستان پر نئی کانفرنس کے انعقاد کی تیاری شروع کر دی ہے ۔ اس سے قبل نومبر کے آغاز پر روس میں ہونے والی کانفرنس میں 10ممالک روس، چین، افغانستان ،پاکستان، بھارت، تاجکستان، ازبکستان، ایران ،ترکمانستان،امریکہ و اقوام متحدہ کے نمائندوں کے علاوہ طالبان وفد نے شرکت کی تھی ۔اس کے نتیجے میں افغان طالبان اور امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کے درمیان قطر میں اہم مذاکرات ہوئے ، جس میں کافی پیش رفت کی اطلاعات ہیں ۔باخبر ذرائع کے مطابق طالبان نے بھی روس کی میزبانی میں مزید مذاکرات میں شرکت پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ کانفرنس میں اس مرتبہ سعودی عرب و دیگر ممالک کو بھی مدعو کیا جائے گا۔کانفرنس میں طالبان کی نمائندگی سابق آرمی چیف مولوی فاضل اور سابق وزیر داخلہ خیر اللہ خیر خواہ کریں گے۔ امریکہ کے ایلچی زلمے خلیل زاد کی شرکت یقینی بنانے کیلئے روس اور طالبان نے مشترکہ کوششیں شروع کر دی ہیں ۔کابل میں نائب روسی سفیرالبرٹ خوزف کی جانب سے افغان حکومت اور کئی سیاسی رہنماؤں سے رابطے کئے گئے ہیں۔ خوزف کا کہنا ہے کہ زلمے خلیل زاد کی شرکت کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ زلمے کی شرکت سے افغانستان میں بڑی پیشرفت متوقع ہے۔تمام ممالک کی جانب سے افغانستان میں جنگ بندی پر زور دینے کیلئے طالبان سے اپیل کی جائے گی ۔ اس کانفرنس میں امریکا کو اپنے اہم نمائندوں کو بھیجنا ہو گا۔بھارت بھی سرکاری طور پر شرکت کرسکے گا ۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ واشنگٹن روس کو افغانستان میں بڑے کھلاڑی کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتا۔بھارت بھی سرکاری سطح پر مذاکرات میں شرکت سے ہچکچا رہا ہے،اسے کانفرنسوں کے انعقاد میں بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ اسے پاکستان کو اہمیت حاصل ہونے کے علاوہ چین و ایران کی شرکت پر بھی اعتراض ہے۔چین و ایران کے علاوہ ہر پڑوسی ملک کو افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر تشویش ہے ۔یہ ممالک سمجھتے ہیں کہ افغان جنگ جلد ختم ہو تاکہ داعش کو مزید طاقتور ہونے سے روکا جا سکے۔ جنگ مزید دو سال رہنے کی صورت میں دہشت گرد گروہ افغانستان میں مزید مضبوط ہو سکتا ہے ۔

Comments (0)
Add Comment