واٹر بورڈ کی نااہلی سے خزانے کو 2ارب58کروڑ کا نقصان

کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو)آڈیٹر جنرل نے کراچی واٹر بورڈ میں2 ارب 58 کروڑ روپے سے زائد کی مالی بےضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واٹر بورڈ حکام طویل عرصہ سے55 ارب،97 کروڑ سے زائد کے واجبات کی وصولی میں بھی ناکام ہیں ۔ دوسری جانب واٹر بورڈ حکام نے غیر قانونی ترقی پانے والے افسران کی چھان بین کرنے والی کمیٹی کو ریکارڈ پیش نہ کرنے والے گریڈ 17 سے 19 کے 21 افسران کی فہرست کمیٹی کو ارسال کر دی ہے جس میں گریڈ 19کے 16افسران شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ڈائریکٹر جنرل آڈٹ لوکل کونسلز سندھ نے واٹر بورڈ کراچی کی مالی سال 2017-18کی آڈٹ سے متعلق سیکریٹری بلدیات کو لیٹر No.DGA/LCS/A.Y -2017-18/01/PDP/1734جاری کرتے ہوئے واٹر بورڈ میں سنگین مالی بےضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے ۔ لیٹر میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ آڈٹ پیراز سے متعلق واٹر بورڈ حکام کو متعدد بار ریکارڈ فراہم کرنے کے لئے خطوط ارسال کئے لیکن کوئی جواب نہ دیا گیا۔مزید کہا گیا ہے کہ انہوں نے ریکارڈ کے حصول کے لئے واٹر بورڈ کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر کو بھی ریکارڈ کی فراہمی کے لئے کہا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ انہوں نے سیکریٹری بلدیات سے کہا کہ وہ اس معاملے میں واٹر بورڈ حکام سے جواب طلب کریں اور ریکارڈ کی فراہمی کے لئے ہدایات جاری کریں۔ ذرائع کے مطابق سیکریٹری بلدیات کو ارسال کی جانے والی آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آڈٹ کے دوران 4کروڑ، 67لاکھ 13ہزار کے اخراجات کا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔ جبکہ نئے صارفین سے سیوریج چارجز کے واجبات کی عدم وصولی کے باعث قومی خزانے کو 2کروڑ، 15لاکھ، 88 ہزار روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ صارفین کو پانی کے نئے کنیکشن دینے کے نام پر خزانے کو53لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ غیر قانونی ہاؤس رینٹ الاؤنس کے نام پر 16لاکھ، 50ہزار روپے جاری کئے گئے جس کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ حکومت کو واجبات کی عدم وصولی کے نام پر 2 ارب، 50کروڑ، 99لاکھ، 31ہزار روپے ، جبکہ واٹر بورڈ طویل عرصہ سے 55ارب، 97کروڑ، 9لاکھ، ایک ہزار روپے کے واجبات وصول کرنے میں تاحال ناکام ہے ۔ واضح رہے کہ ریکارڈ کی فراہمی کے لئے واٹر بورڈ کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر آر آر جی کو 28اگست 2018کو جاری کئے جانے والے لیٹر میں ریکارڈ فراہمی کے لئے مہلت دی گئی۔ جبکہ سیکریٹری بلدیات کو 6نومبر 2018کو لکھے گئے لیٹر میں ریکارڈ کی فراہمی کے لئے ایک ہفتے کی مہلت دی گئی ،تھی لیکن اس کے باوجود ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ ڈپارٹمینٹل اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس معاملے پر غور کیا گیا اور واٹر بورڈ حکام کو ریکارڈ کی فراہمی کے لئے ہدایات جاری کی گئیں ، لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ دوسری جانب واٹر بورڈ حکام نے واٹر کمیشن کی ہدایات پر غیر قانونی ترقی پانے والے افسران کے ریکارڈ کی چھان بین کرنے والی کمیٹی کو ریکارڈ فراہم نہ کرنے والے 21 افسران کی فہرست جاری کی ہے۔ سیکریٹری بلدیات کو ارسا ل کئے گئے لیٹر No.KWSB/D.MD/HDR&A/363 میں کہا گیا ہے کہ ان افسران کو اظہار وجوہ کے لیٹر جاری کئے گئے اور انہیں ہدایت کی گئی کہ واٹر کمیشن کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے ریکارڈ کی فراہمی کے لئے متعدد خطوط لکھے گئے لیکن ان افسران کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور یہ افسران جان بوجھ کر واٹر کمیشن اور کمیٹی کے احکامات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق واٹر بورڈ حکام نے چھان بین کرنے والی کمیٹی کے چیئرمین کو سفارش کی ہے کہ ان افسران کے خلاف ای اینڈ ڈی رولز 1987 کے تحت کاروائی کی جائے۔ جاری کی گئی فہرست میں جن گریڈ 19 کے افسران کے نام ظاہر کئے گئے ہیں ان میں ڈائریکٹر ریونیو ایس ایم غیاث اور خالد سلطان ، سپرنٹینڈنگ انجنیئر ڈبلیو ٹی ایم ظفر علی، سپرنٹینڈنگ انجنیئر سول پی ایس تھری خرم شہزاد، سپرنٹینڈنگ انجنیئر سول توقیر علی خان، سپرنٹینڈنگ انجنیئر سول محمد حنیف، سپرنٹینڈنگ انجنیئر سول نظام الدین، سپرنٹینڈنگ انجنیئر مکینیکل ایس منظور یامین، سپرنٹینڈنگ انجنیئر مکینیکل انتخاب احمد، منظور علی خان، جمیل احمد، امتیاز الدین، سپرنٹینڈنگ انجنیئر سول امتیاز الدین، سپرنٹینڈنگ انجنیئر ای اینڈ ایم حسن اعجاز کاظمی، سپرنٹینڈنگ انجنیئر سول امداد حسین مگسی، روشن الدین میمن شامل ہیں۔ فہرست میں دئیے جانے والے گریڈ 18کے افسران میں ایگزیکٹو انجنیئر سول تابش رضا حسنین، تارا چند، ایس ایم اعجاز شامل ہیں ۔ گریڈ 17کے افسران میں اسٹنٹ ایگزیکٹو انجنیئر ای اینڈ ایم مسعود کاظمی، مظہر حسین، ایم راشد صدیقی شامل ہیں۔اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر کمیٹی کے چیئرمین اور سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ نے کہا کہ تمام متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ 29نومبر تک ریکارڈ فراہم کریں یا کمیٹی کو تحریری طور پر آگاہ کریں کہ ان کے پاس ریکارڈ نہیں ہے اور وہ ریکارڈ پیش نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ حاصل ریکارڈ میں درجنوں ایسے افسران کے نام سامنے آئے ہیں جن کو گریڈ ایک سے ترقی دے کر گریڈ 17سے 19کی آسامیوں پر تعینات کیا گیا ہے۔

Comments (0)
Add Comment