شوگر مل مافیا نے عدالتی و حکومتی احکامات ہوا میں اڑا دیئے

کراچی(رپورٹ: ارشادکھوکھر)وفاقی پنجاب حکومتیں بھی شوگر مل مالکان کے سامنے بے بس ہوگئیں۔عدلیہ و وفاقی حکومت کی جانب سےچینی کے کارخانے چلانے کے احکامات ہوا میں اڑا دیے گئے ۔سندھ اور پنجاب میں گنے کی کریشنگ شروع نہ ہوسکی ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ گنے کی کرشنگ کے معاملے میں پنجاب و سندھ کے شوگر ملزمالکان ایک ساتھ ہیں جنہیں وفاقی حکومت کی جانب سے نظر ثانی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔سندھ کے محکمہ زراعت کے اعلیٰ سطح کے ذرائع کا کہناہے کہ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ کو سمری ارسال کی گئی ہے جس سے گنے کے نرخوں کے متعلق آبادگاروں اور ملزمالکان کا موقف تحریر کیاگیا ہے ۔سمری میں سفارش کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ جو مناسب سمجھیں نرخ مقرر کرکے مزید احکامات جاری کریں ۔تفصیلات کے مطابق وفاقی کابینہ نے اپنے اجلاس میں رواں سیزن کے دوران ماضی کو دہرانے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے پنجاب میں 15نومبر سے گنے کی کرشنگ کا اعلان کیا تھا ۔ وفاقی کا بینہ کے فیصلے پر حکومت پنجاب نے گنے کی امدادی قیمت 180روپے من مقرر کی جسے شوگرملز ملزمالکان نے مسترد کر دیا جس سے 15نومبر سے پنجاب میں شوگر ملیں چلانے کے وفاقی حکومت کا اعلان دھرے کا دھرا رہ گیا۔ ذرائع کا کہناہے کہ وفاقی حکومت و پنجاب حکومتوں کے متعلقہ حکام نے کرشنگ کے آغاز کیلئے جہانگیر ترین سے بھی مشاورت کی تھی جوچند شوگرملوں کے مالک ہیں۔ان کی شوگر ملوں کا شمار زیادہ گنا کرش کرنے والی ملوں میں ہوتا ہے۔سندھ ہائی کورٹ پہلے ہی صوبائی حکومت کوگنے کی امدادی قیمت کے تعین اور30نومبر سے کرشنگ شروع کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کا حکم دے چکی ہے تاہم اب تک صوبائی حکومت اس پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر زراعت سندھ کی زیر صدارت اجلاس میں بھی گنے کی امدادی قیمت مقرر کرنے کا معاملہ طے نہ ہوسکا ۔ آباد گارگنے کی امدادی قیمت 182روپے من مقرر کرانا چاہتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ چینی کے ایکس مل نرخوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔شوگر مل مالکان صرف چینی نہیں ، ایتھونل، بجلی سمیت دیگر مصنوعات بھی پیدا کرتے ہیں ۔ ان اشیا کی پیداوار سے آبادگاروں یا گنے کے نرخوں کا کوئی تعلق نہیں۔شوگر مل مالکان کا موقف ہے کہ وہ فی من گنے کی امدادی قیمت 130سے 140روپے سے زیادہ نہیں دے سکتے ۔گزشتہ سیزن میں عارضی طورپر فی من گنے کی امدادی قمیت 160روپے مقرر کی گئی تھی ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ کی 32میں سے4 شوگر ملوں نے کرشنگ شروع کر دی ہے ۔ ان میں مٹیاری ، خیرپور اور باندھی شوگر ملیں شامل ہیں۔امت سے گفتگو میں سندھ آباد گاربورڈ کے رہنما عبدالمجید نظامانی کا کہنا تھا کہ نئی حکومت آنے کے باوجود شوگر مل کی صنعت میں تبدیلی نہیں آئی۔شوگر مافیا کے سامنے نئی حکومت بھی بے بس ہے اور گنے کے نرخ طے کرنے کے ساتھ ملیں تاخیر سے چلانے کے وہی پرانے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔اومنی گروپ کی ملیں چلیں یا بند رہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،صرف اومنی گروپ نہیں بلکہ پوری شوگر ملز صنعت مافیا بن چکی ہے اور ملز مالکان کا رویہ ایک صنعت کار کے بجائے وڈیرے اور چوہدری کا ہے ۔اب عدالت کے احکاما ت پر بھی عمل نہ ہوتو پھر کیا رہ جاتا ہے۔

Comments (0)
Add Comment