ضیاالحق نے جماعت اسلامی کو اقتدار دینے کی پیش کش کی تھی

لندن (امت نیوز) محمد عواد سوڈان کے اخوان المسلمون کا ایک پکا نظریاتی کارکن تھا۔ مسکراتے چہرے والا عواد اس دن غیر معمولی طور پر سنجیدہ بلکہ رنجیدہ تھا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا کہ فاروق! میں پریشانی کے عالم میں آپ کو یا اسلامی جمعیت طلبہ کے دوستوں میں سے کسی ذمہ دار سے ملاقات کی کوشش میں ہوں، لیکن دوپہر کا وقت ہے اور سب لوگ سو رہے ہیں۔“ ” کیا خیرت ہے … عواد بھائی؟ “ ” ہاں خیر تو ہے … مگر ایک انتہائی سنجیدہ معاملے نے پریشان کر رکھا ہے۔“ پھر گویا ہوئے : ” آپ سوڈان کی اسلامی جماعت کے امیر و سربراہ محترم ڈاکٹر حسن ترابی کو جانتے ہوں گے۔ آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ وہ آج کل پاکستان کے دورے پر تشریف لائے ہیں۔ فاروق … ! کسی کو معلوم نہیں … یہ انتہائی سیکریٹ ہے۔ وہ جنرل ضیا الحق کی دعوت پر یہاں آئے ہیں۔ جنرل صاحب اس سال کے آخر تک عام انتخابات منعقد کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کی انتہائی خواہش ہے کہ غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروا کر اپنے آئینی اختیار کے مطابق حکومت اور وزارت عظمیٰ کے لئے ہمارے جماعت اسلامی کے دوستوں کو منتخب کریں۔ انہوں نے مختلف سطحوں پر اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے بزرگوں سے بات کی، مگر وہ نہیں مانے۔ آخر انہوں نے ثالثی کے طور پر محترم حسن ترابی کو دعوت دی، اور ترابی صاحب کی شرط کے مطابق اس بات کے لئے تیار ہو گئے کہ ترابی صاحب ان کے اور جماعت کے درمیان جن شرائط پر بھی بات طے کرائیں گے، وہ سب شرائط انہیں منظور ہوں گی۔ جنرل صاحب کا اصرار ہے کہ اب تک اس ملک پر حکمرانی کرنے والا طبقہ (اشارہ واضح طور پر مسلم لیگیوں کی طرف تھا) اس ملک و قوم اور اس کے نظریئے سے کوئی وابستگی نہیں رکھتا۔ اگر اس مرتبہ پھر انہیں اقتدار مل گیا، تو جنرل صاحب کی قیادت میں شروع کئے گئے کام اور اصلاحات کا کوئی فائدہ نہیں رہے گا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ ملک ان لوگوں کی حکمرانی میں کبھی بھی ایک اسلامی ریاست نہیں بن سکتا۔ وہ الیکشن کے بعد اقتدار جماعت اسلامی کو دینا چاہتے ہیں، مگر حیرت انگیز طور پر جماعت کے اکابرین نہ تو اس پر اعتماد کرتے ہیں، نہ ترابی صاحب کی یقین دہانی اور ضمانت کو قبول کر رہے ہیں، بلکہ حد درجہ افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں اسے ”منافق“ کے سوا کسی دوسرے نام سے یاد بھی نہیں کرتے“۔ یہ کہتے ہوئے محمد عواد کسی حد تک جذباتی ہو گیا۔ وہ ہمارے ساتھ گفتگو میں اکثر ”یار“ کا لفظ استعمال کرتا تھا۔ جذباتی انداز میں … اور انتہائی ملتجی نگاہوں سے میری طرف دیکھ کر اپنی ناپختہ انگریزی میں کہا : ” فاروق … ! یار … وائی یو سے ھم منافق ؟ پلیز پلیز، فار گاڈسیک ڈونٹ سے ھم منافق … ! وائی یو سے ھم منافق ؟“۔ محمد عواد جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے درمیان فرق و تعلق دونوں سے کچھ زیادہ واقف نہ تھا۔ اسے اس امر کا بھی کوئی ادراک نہ تھا کہ خود میری نہ تو جماعت اسلامی اور نہ اسلامی جمعیت طلبہ میں کوئی حیثیت تھی۔ ہمارا تعلق اس وقت محض ایک وابستگی اور پھر جیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں محدود ذمہ داری تک تھا۔ انہیں شاید اس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا کہ اگر محترم حسن ترابی بنفس نفیس جماعت کے اکابرین سے بات کر رہے تھے اور وہ ماننے کو تیار نہیں تھے تو ہم اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے جماعت کی قیادت کو ایسی کوئی بات پہنچانے کے باوجود انہیں کیسے قائل کر سکتے تھے؟ میری طرف سے اس مجبوری کو بیان کرنے کے بعد محمد عواد کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔ پھر کہنے لگا، فاروق ! حقیقت کا علم تو الله سبحانہ و تعالیٰ کو ہے، لیکن ترابی صاحب اور یہاں پاکستان میں موجود سوڈان کے اخوان بھائیوں کی متفقہ رائے یہ ہے کہ جماعت اسلامی خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بہت بڑے موقعے کو ضائع کر رہی ہے۔ اس نے گفتگو ایک بار پھر ان الفاظ کو دہرا کر ختم کر دی : ” وائے یو سے ھم منافق ؟ فار گاڈ سیک ڈونٹ ھم منافق ! ڈونٹ سے ھم منافق …“۔ یہ جملے دہراتا ہوا عواد مایوسی کی حالت میں ہاسٹل واپس جانے کے بجائے باہر کسی ایک جانب نکل گیا … اور میری نیند ختم ہو جانے کے باوجود میں ہاسٹل کی طرف آگے بڑھنے لگا۔ حقیقت حال کا علم الله کو ہے، مگر آج 30، 35سال گزرنے کے بعد جو صورت ہمارے سامنے ہے، اور جماعت اسلامی اور ملک میں اس کی سیاسی پوزیشن، نیز خود ملک کی حالت ہمیں جس کیفیت کا پتہ دیتی ہے، اس میں اس حقیقت کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں کہ جماعت اسلامی نے واقعی ایک نادر موقع ضائع کیا ہے، اگر ضیا الحق شہید کی پیش کش قبول کی جاتی، فوج اور خود شہید کی وردی اور بعض مجبوریوں کا خیال رکھ کر احتیاط و حکمت کے ساتھ آگے بڑھ کر ملک کے نظریاتی، آئینی، قانونی اور اقصادی مسائل پر توجہ دی جاتی۔ جماعت کے باکردار لوگ اقتدار کو امانت سمجھ کر ہر قسم کے کرپشن سے دامن بچاتے ہوئے اس ملک کو ”گوڈ گورننس“ کے ذریعے ایک متبادل قیادت فراہم کرتی، جس کی پوری صلاحیت (potential) جماعت اسلامی کے اندر موجود ہے، تو بے شک بعد کے انتخابی معرکوں میں اقتدار سے محرومی کے باوجود بھی جماعت آج اس ملک میں ایک متبادل اور نمایاں قیادت کی سطح پر موجود ہوتی اور جو آئینی و قانونی اصلاحات حکومت میں رہ کر کرتی، وہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہونے کی وجہ سے حدود آرڈیننس اور شہید کے دور میں دوسرے ایسے بنائے گئے قوانین کے مقابلے میں ہزار ہا گنا بہتر ہوتے۔ میں بوجوہ اس رائے سے کبھی اتفاق نہیں رکھتا کہ اگر جماعت شہید ضیا کے ساتھ حکومت میں شریک ہوتی تو اس کا انجام بھی جونیجو سے مختلف نہ ہوتا۔ میری گزارش یہ ہے کہ صبر و حکمت، بے داغ کیریکٹر اور نظریہ اسلام کے لئے اخلاص وہ اوصاف ہیں، جو جماعت اسلامی کی قیادت فراہم کر سکتی تھی اور اس کے نتیجے میں جنرل ضیا کا رویہ ان کے ساتھ کبھی بھی وہ نہیں ہو سکتا تھا، جو جونیجو صاحب کی ذاتی درست کردار کے باوجود اس کی ٹیم کے بدعنوان اہل اقتدار اور اپوزیشن کے پروپیگنڈے سے مرعوب خود جونیجو صاحب کی ناقابل قبول حرکات کی وجہ سے جنرل صاحب کا ان کے ساتھ تھا۔ترکی کے اردوگان کی حکمت و تدبر کے گیت تو گائے جاتے ہیں، لیکن کیا جماعت اسلامی دیانت و صلاحیتوں کا اثاثہ رکھنے کے باوجود خود یہ تجربہ نہیں کر سکتی تھی ؟ چنانچہ بدقسمتی دیکھیے کہ نعرہ بلند ہوا کہ ڈکٹیٹروں کا نہ تو ساتھ دینا چاہئے، نہ ان کو ریلیف دے کر ان کو اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع دے دینا چاہئے۔ یہ جماعت کی قیادت کا اس وقت کا ”بصیرت افروز“ موقف تھا، جب ضیاء شہید جیسا صاحب ایمان، ڈکٹیٹر ہونے کی ”مجبوری“ کے ساتھ کرسی اقتدار پر موجود تھا اور اس کی بدقسمتی تھی کہ وہ جماعت اسلامی کو اقتدار منتقل کرنے پر آمادہ اور نفاذ اسلام میں اس سے تعاون لینے کا محتاج تھا۔ اپنی سیاسی مستقبل کی فکر میں گھلنے والی جماعت اسلامی قریب جانے پر آمادہ نہ ہوئی، مگر خدا کی شان ہے ایک صاحب ایمان ڈکٹیٹر سے اس درجہ نفرت و بیزاری اختیار کرنے والی جماعت اسلامی نے چند ہی سال بعد یہ معرکت الا اراء کارنامہ اپنے نام کیا کہ اس ڈکٹیٹر سے بدر جہا بدتر دشمن اسلام و پاکستان، مشرف کی گود میں جا کر بیٹھ گئی۔ اس ڈکٹیٹر کی قیادت میں عین اس کی ناک کے نیچے حضرت فضل الرحمن کے آرزؤں کی تکمیل میں پہلے انہیں وزیراعظم بنانے کی کوشش کی گئی۔ پھر اس میں ناکامی کے بعد قومی اسمبلی میں ایک طرح سے اپوزیشن کا کردار نبھا کر اس نظام کو قانونی سند جواز عطا کیا۔ اس کے ”قاف لیگیوں“ کو اقتدار کے ایوانوں میں قبول کر کے اس طرح اس دشمن خدا کو بحیثیت صدر legitimate کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ یہی نہیں اس پورے قانونی نظام کا حصہ بن کر اس کی طرف سے آقائے امریکہ کی خدمت اقدس کے لئے کرنے کروانے والے قتل عام میں ”سسٹم کا حصہ“ ہونے کے ناطے، بلا واسطہ نہیں تو بالواسطہ حصہ بھی لیا۔ بہت بہتر تھا کہ اس پورے دور ابلیس میں جماعت اسلامی کے لوگ خالص تبلیغی و دعوتی کام میں مصروف ہو کر سیاست سے لاتعلق رہتے اور مشرف کو کوئی ”ریلیف“ دینے کے بجائے تبلیغیوں کی طرح مسجدوں میں پھرتے رہتے۔ قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں، جماعت اسلامی انسانوں کی جماعت ہے، غلطی انسانوں کا شیوہ ہے، مگر اس پہاڑ جیسی غلطی سے بہتر تھا، اس دور میں یہ پاکباز لوگ بھیڑ بکریاں چرانے، پہاڑوں پر نکل جاتے۔ آج اسی جماعت اسلامی کی سیاسی پوزیشن کا حال یہ ہے کہ ایک صوبے میں ایک نوزائیدہ سیاسی قوت کو کندھا استعمال کرنے اور جماعت کے بزرگوں کی تیسری نسل کے پڑپوتے کے برابر عمران خان کی ذاتی ایمانداری کا سہارا کافی سمجھ کر ایک اذیت ناک سفر کے ساتھ پل صراط پر چیونٹی کی چال چلتی، زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پھر محمد عواد کے یہ الفاظ کہ : ” فاروق… ! وائے یو سے ھم منافق … ؟ فار گاڈ سیک ڈونٹ سے ھم منافق … یار … ! وائے یو سے ھم منافق؟ “ ان الفاظ کی گونج آج بھی میرے کانوں میں ہے۔ غور کرتا ہوں تو یہی سمجھ آتا ہے کہ ہمارے جماعت کے
ان پیارے مخدوموں کو ضیا شہید کی ”منافقت“ جتنی کھٹکتی تھی، اتنی مشرف کی ”غیر ایمانی“ انہیں پسند آ گئی اور اپنے زرین اصول کے مطابق اس ”منافق“ کو دست تعاون بڑھانے کو بجائے اس دوسرے ”مجاہد اسلام“ مشرف کو سند جواز عطا کرنا شریعت اسلام اور حکمت کا تقاضا سمجھ کر پورا کیا۔ مجھے اس بات پر قطعاً اصرار نہیں کہ جماعت اسلامی کو ضیا شہیدکی پیش کش ہر صورت قبول کر لینی چاہئے تھی، اور انکار کا فیصلہ وحی کی قطعیت کی بمثل غلط ہے۔ لیکن مجھے اس پر ضرور اصرار ہے کہ اگر اس ڈکٹیٹر سے وہ نفرت اور دوری، ڈکٹیٹر شپ سے نفرت اور جمہوریت پسندی کا تقاضا تھا، تو عین انہی اصولوں کے مطابق مشرف کی طرف دست تعاون بڑھانا کون سی اصول پسندی یا تقاضائے شریعت تھا ؟ یہ سوال اپنی جگہ ہے اور رہے گا۔ میں مختصراً عرض کروں کہ اس ملک میں اسلام کے غلبے کے لئے ایک ممکن نادر موقع اس لئے ضائع ہوا کہ ڈری اور سہمی جماعت اسلامی کے لئے مارشل لا کی ”بی“ ٹیم کا طعنہ اعداء نے اس کے اتنے اوسان خطا کر دیئے تھے کہ اسے پہلے سے موجود اس بدنما داغ سے نجات کی فکر لاحق تھی، وہ ”اے ٹیم“ بننے کی تاب کب لا سکتی تھی؟ قرآن نے اہل حق کی ایک بہت بڑی صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ: یٰٓاَیُّھا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہ فَسَوْفَ یَاتِی اللہ ُ بِقَّومٍ یُّحِبُّھْمُ وَیُحِبُّوْنَہ اَذِلَّة عَلَیِ الْمُؤمِنِیْنَ اَعِزَّةُ عَلّیِ الْکٰفِرِینَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِوَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَہَّ لَا یمٍ ذ ٰ لِکَ فَضْلُ اللہ ِ یْوٴتیْہِ مَنْ یَّشَاءُ وَاللہ ُ وَاسِعْ عَلِیْمٌ (المائدہ:54)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) الله اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کرے گا جو الله کو محبوب ہوں گے اور الله ان کو محبوب ہو گا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو الله کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ یہ الله کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ الله وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔“ مومن کے لئے ”نرم“ اور کافر کے لئے ”سخت“ کے الفاظ کے ساتھ دین کے مقصد کے حصول میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے کے الفاظ بہت ہی قابل غور ہیں۔ یہی حال محمد خان جونیجو بے چارے کا ہوا۔ اس سادہ آدمی کو ہے جمالو کے عیاروں کی جانب سے ”ریت کی بوری“ کے طعنے نے ایسا سراسیمہ کر دیا تھا کہ ” صاحب اختیار“ وزیراعظم ہونے کو ظاہر فرمانے کی نفسیات نے اس شاخ نشیمن پر کلہاڑا دے مارنے کی عاقبت نااندیش سعی پر مجبور فرمایا، جس پر خود اس کی سلامتی و وجود کا انحصار تھا۔ شاخ تو اس وار کہاڑ سے نہ ٹوٹ سکی، البتہ جونیجو صاحب دھکا کھا کر سر کے بل نیچے زمین پر آ رہے۔

Comments (0)
Add Comment