راولپنڈی (رپورٹ :مرزا عبدالقدوس ) گلگت بلتستان ایک حساس علاقہ ہے جس کا مسئلہ کشمیر سے بھی تعلق ہے اس لئے قانونی اور عالمی سطح پر مستقبل میں پیدا ہونے والی ممکنہ پیچیدگیوں پر مکمل غور اور ان کا تدارک کرنے کے لئے جی بی کو عبوری صوبہ بنانے کا فیصلہ مؤخر کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق گلگت بلتستان کے عوام کو تمام قانونی حقوق دینے اور انتظامی معاملات میں بہتری لانے کے لئے گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے حل تک عبوری صوبہ بنانے کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق پچھلے دور میں سرتاج عزیز کمپنی نے بھی یہی فیصلہ کیا تھا اور پی ٹی آئی حکومت کے وزیر اور کشمیر و شمالی علاقہ جات علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں کمیٹی نے پرسوں وفاقی کابینہ کو یہی سفارشات پیش کیں کہ اسلام آباد کے بعض حلقوں اور آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کی مخالفت کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دینے اور علاقے میں ترقی کے لئے اسے عبوری صوبہ بنانا ناگزیر ہے لیکن بعض مؤثر حلقوں کی یہ تجویز اور رائے سامنے آئی کہ چونکہ اس علاقے کا تعلق ماضی میں جموں کشمیر سے رہا ہے اگر اب اسے صوبہ بنادیا گیا تو بھارتی پراپیگنڈہ مزید بڑھ جائے گا اس لئے اس سلسلے میں نہ صرف سفارتی محاذ پر تیاری کے لئے وزارت خارجہ کو پوری طرح مشاورت میں شامل کرکے انڈین پراپنگنڈے کا جواب تیار کیا جائے بلکہ چین کی حکومت کو بھی اعتماد میں لے کر یہ فیصلہ کیا جائے کیونکہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ یہ علاقہ چین کی سرحد پر واقع ہے خراب موسمی حالات میں جب کبھی یہ ملک سے کٹ جاتا ہے تو چین کے بارڈر پر پھر بھی محدود آمدو رفت جاری رہتی ہے۔ عالمی برادری میں کسی موقع پر چین کی حمایت اہمیت کی حامل ہوگی اور سب سے بڑھ کر مجوزہ صوبہ گلگت بلتستان سے سی پیک گزر رہا ہے اس لئے بھی اس سے مشاورت اور اس کی حمایت ضروری ہے۔ ذرائع کے مطابق ملک کے مقتدر حلقے اور تمام سیاسی جماعتیں بشمول پی ٹی آئی اور گلگت بلتستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) عبوری صوبہ بنانے کے حق میں ہیں لیکن مقتدر حلقوں کا موقف ہے کہ سفارتی محاذ اور چین کو بھی آن بورڈ لے کر فیصلہ کیا جائے تاکہ آنے والے دونوں میں کسی خفت یا پشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ گلگت بلتستان بار کونسل جس نے اس حوالے سے رٹ بھی سپریم کورٹ میں دائر کی تھی کابینہ کی جانب سے عبوری صوبہ مؤخر کرنے کے فیصلے کو حکومت پاکستان کی کمزوری اور مودی حکومت کو خوش کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ بھارت کشمیر اور جی بی کو اپنا علاقہ قرار دے کر پاکستان کے ساتھ اس کی کسی بھی حوالے سے وابستگی کے خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ جی بی بار کونسل اسے بھارتی حکومت کو خوش کرنے کی کوشش قرار دے رہی ہے۔ ممتاز دفاعی و سیاسی تجزیہ نگار جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق حکومت پاکستان نے اندرونی پیچیدگیاں دور کرنے اور مزید مشاورت کرنے کے لئے فیصلہ مؤخر کیا اسے بھارت کو خوش کرنے کی کوشش قرار دینا غلط ہے۔ امت سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت تو تب خوش ہو جب خدا نخواستہ کچھ علاقہ اس کے حوالے کرنے کی بات کی جائے وہ تو اس کے پاکستان کے ساتھ ہونے پر ناراض ہے اور رہے گا، انہوں نے کہا کہ جی بی کو مسئلہ کشمیر کے حل تک عبوری صوبہ بنانے کا فیصلہ حتمی ہے جس میں بعض امور ابھی طے ہونا باقی ہیں۔دوسری جانب آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کو یہ اعتراض ہے کہ جی بی ڈوگرہ راج میں کشمیر کا صدرمقام تھا جب کبھی یو این او کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے ریفرنڈم ہوگا تو جی بی کے لوگوں کا بھی آئینی و قانونی حق ہوگا کہ وہ اس میں حصہ لے کر اپنی رائے دیں اب اگر اسے پاکستان کا صوبہ بنادیا جاتا ہے تو جی بی کی آبادی اس وقت اپنا ووٹ دینے کا حق کھودے گی، ہماری تعداد میں واضح کمی ہوگی جبکہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں پنڈت بسا کر اپنے ووٹرز کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے،۔جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق اب مسئلہ یہ ہے کہ کیسے اس علاقے اور آبادی کو صوبہ بنایا جائے اور وقت آنے پر انہیں ڈوگرہ راج کے کشمیر کا حصہ ثابت کیا جائے اس پر وزارت قانون الجھنیں حل کرنے میں مصروف ہے۔ذرائع کے مطابق اسلام آباد کی بیوروکریسی خصوصاً وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کے کرتا دھرتا جو اس علاقے پر اسلام آباد سے بیٹھے حکمرانی کررہے ہیں وہ بھی پیچیدگیاں پیدا کررہے ہیں تاکہ اس فیصلے کو اور سوچ کو ختم کردیا جائے یا جتنی دیر ممکن ہو مؤخر رکھا جائے۔ اس سلسلے میں ذرائع کے مطابق ان کے آزاد کشمیر کے سیاست دانوں سے بھی روابط ہیں۔ کابینہ کی جانب سے یہ فیصلہ مؤخر کئے جانے کے بعد جی بی بار کونسل کو وفد نے مزید اعلیٰ جی بی حافظ حفیظ الرحمان سے ملاقات کی بار کونسل کے ممبران سے پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں سے بھی رابطے ہیں اور گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے فیصلے پر فوری عمل کرانے کے لئے چند دن میں مشاورتی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔