کراچی (اسٹاف رپورٹر) حساس اداروں نے کراچی میں تجاوزت ہٹانے کا سلسلہ گلی ،محلوں تک لے جانے اور اسے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے شہر میں امن وامان کی صورتحال پر اثرات مرتب ہونے کے خدشات ظاہر کردئیے ہیں ۔ شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ متحدہ نے پارکس اور دیگر فلاحی پلاٹس وغیرہ پر قائم تجاوزات اور پی پی پی قیادت نے گوٹھوں کے نام پر قبضہ شدہ اراضی کو بچانے کے لئے سپریم کورٹ کے حکم پر شروع کردہ تجاوزات مخالف آپریشن کا دائرہ دانستہ پورے شہر اور خصوصاً رہائشی علاقوں میں پھیلانے کی کوشش کی ہے ، تاکہ مہم متنازعہ ہوجائے اور بااثر افراد کے قبضے بچائے جاسکیں ۔ اس ضمن میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ حساس اداروں نے حکومت کو ارسال کردہ رپورٹ میں خدشات ظاہر کئے ہیں کہ کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کو گلی محلوں اور رہائشی علاقوں تک بڑھانے سے امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے اور مذکورہ آپریشن کو بعض عناصر اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، جس کے باعث اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔علاوہ ازیں ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے پارکس سمیت رفاہی پلاٹوں ،تجارتی علاقوں اور سرکلر ریلوے کے روٹ سے تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا تھا تاکہ ٹریفک کی روانی بہتر ہواور سرکلر ریلوے بحال ہو ، نیز شہریوں کو پارکس میں تفریح کے مواقع میسر آسکیں ،تاہم مئیر کراچی نے کے ایم سی کی لیز شدہ تعمیرات بھی گرا نی شروع کردیں ۔ ذرائع کے مطابق بیشتر پارکس اورفلاحی پلاٹس وغیرہ پر تجاوزات کے ذریعے تعمیرات متحدہ نے کرائی ہیں اور انہیں بچانے کے لئے دانستہ آپریشن کو متنازعہ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح گوٹھوں کے نام پر سرکاری اراضی پر جو قبضہ کرکے تعمیرات کی گئی ہیں ،ان میں پی پی پی رہنما ملوث بتائے جاتے ہیں ، جو ممکنہ آپریشن سے سخت پریشان ہیں ۔ ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں کے حامی افسران نے ا یسی صورتحال پیش آنے سے بچنے کے لئے تجاوزات کے خلاف آپریشن کا رخ رہائشی علاقوں اور گلی محلوں تک پھیلادیا ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جو پی پی حکومت کے ماتحت ہے ،پہلے اس نے اچانک رہائشی علاقوں میں قائم اسکول بند کرنے کا اعلان کردیا ،جس پر شدید ردعمل آیا تو فیصلہ دوسرے روز واپس لیا گیا ،تاہم اب رہائشی علاقوں میں قائم دکانیں گرانے کے نوٹس دئیے جارہے ہیں ، ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی تقریباً 70فیصد علاقے ایسے ہیں جہاں آباد نچلے اور درمیانے درجے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد انہی گلی محلوں کے دکانداروں سے خریداری کرتے ہیں ،لیکن رہائشی علاقوں میں ان دکانوں وغیرہ کوبھی کمرشل قرار دے کر بلڈنگ اتھارٹی نے انہیں مسمار یا بند کرنے کا نوٹس دے کر خوف وہراس پھیلادیا گیا۔ اس اقدام سے ناصرف لاکھوں افراد کا روزگار متاثر ہوگا ، بلکہ شہریوں کی اکثریت بھی عذاب میں مبتلا ہو جائے گی اور ان کے لئے روز مرہ کی خریداری مشکل ہوجائے گی ۔ ذرائع نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ایک طرف سندھ حکومت گھروں اور رہائشی آبادیوں کو گرانے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کررہی ہے اور دوسری جانب اس کا ماتحت محکمہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی رہائشی علاقوں میں دکانوں اور مکانات کو نوٹسز دے کر خوف و ہراس پھیلارہا ہے۔ ذرائع کا کہناہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے برعکس تجاوزات ہٹانے کے آپریشن کا رخ رہائشی علاقوں تک پھیلانے کے پیچھے ایک سیاسی حکمت عملی ہے ، تاکہ آپریشن کو متنازعہ بناکر پارکس سمیت دیگر فلاحی پلاٹس اور گوٹھوں کے نام پر زمینوں کے قبضے بچائے جاسکیں ۔ ایک اور ذرائع کا کہناتھا کہ مذکورہ آپریشن کو گلی محلوں تک جانے پر امن وامان کی صورتحال پیدا ہونے کے جو خدشات ظاہر کئے جارہے تھے اس صورتحال سے متحدہ لندن کی قیادت بھی بھرپور فائدہ اٹھا کر شہر میں کشیدگی بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ذرائع نے بتایا کہ حساس اداروں نے اس صورتحال پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے ۔