قائد اعظم کو پاکستان بنانے کا حکم رسول پاکﷺ نے دیا تھا

لندن (امت نیوز) قائد اعظم کس کے حکم سے برصغیر واپس تشریف لانے پر آمادہ ہوئے تھے۔؟ ۔۔۔ سنئے، اس کا نام ”ایلن کسلر“ ہے۔ یہ امریکی باشندہ امریکہ میں پاکستان کا ایک بہترین دوست اور خیر خواہ ہیں۔ یہ 1947 تا 1965 اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان میں رہ چکے ہیں۔ 2017 میں ایک ٹی وی پروگرام میں شرکت کر کے اس نے بتایا : ” میں پاکستان سے محبت کرتا ہوں… اس لئے کہ یہ دوسرے ممالک کی طرح ایک عام ملک نہیں ہے۔ یہ کس طرح وجود میں آیا ہے ؟ شاید خود پاکستانیوں کو بھی معلوم نہیں۔ جب چونتیس میں قائد اعظمؒ واپس ہندوستان تشریف لے آئے تو علامہ شبیر احمد عثمانی ؒنے قائد سے پوچھا تھا … کہ آپ کس کے کہنے پر واپس آنے پر آمادہ ہوئے؟ قائد نے جواب میں عثمانی صاحب سے وعدہ کر لیا کہ وہ قائد کی زندگی میں یہ بات کسی کو نہیں بتائیں گے …! قائد اعظم ؒ نے فرمایا کہ ایک رات میں سویا تھا کہ میرا پلنگ زور سے ہلایا گیا۔ میں اٹھا … ادھر ادھر دیکھا، مجھے کوئی نظر نہیں آیا … دوبارہ سو گیا … پھر وہی ہوا … مگر اس مرتبہ بھی مجھے کوئی نظر نہیں آیا … تیسری بار جب میں لیٹ گیا تو اس بار شدت سے میرا بیڈ بہت زور دار طریقے سے ہلایا گیا۔ میں سمجھا کہ زلزلہ ہو گیا۔ اس بار میں نے نورانی چہرے والا بزرگ دیکھا،انہوں نے بتایا کہ میں تمہارا نبی محمد ؐہوں … انہوں نے مجھے حکم دیا کہ برصغیر جاکر وہاں کے مسلمانوں کی تحریک آزادی کی قیادت کرو، میں تمہارے ساتھ ہوں فکر نہ کرو۔(: My lord ,, ! What can I do for you ? He said :” Your are urgently required by the Muslims of the subcontinent and I order you to lead the freedom movement. I am with you, don’t worry.” )یہاں میں ایک اور گواہی کو بھی اپنے اوپر فرض سمجھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ جو لوگ اس ملک میں پاکستان دشمنی کے جذبے میں محمد علی جناح کو دین کے راستے سے ہٹا ہوا ایک اسماعیلی اور بے دین شخص باور کرا رہے ہیں، وہ اپنی رائے پر دوبارہ غور کریں گے۔ اس کا نام حاجی برکت داد تھا۔ یہ میرے اسکول کی طالب علمی کا زمانہ تھا۔ ہم ان دنوں میرے والد کی سرکاری ملازمت کے سلسلے میں علاقہ بونیر سلار زئی میں رہائش پذیر تھے۔ وہاں پر موجود بڑے گاؤں ”جوڑ“ کے یہ باریش بزرگ یہی حاجی برکت داد کبھی کبھی اسپتال آ کر ہم بچوں سے اپنی زندگی کی کہانیاں شیئر کیا کرتے تھے۔ وہ بمبئی میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے کئی سال تک ذاتی ڈرائیور رہ چکے تھے۔ ہم ہندوستان، خاص کر بمبئی میں ان کی زندگی کے واقعات اور کہانیوں سے بڑے لطف اندوز ہوتے تھے۔ مجھے بچپن سے گاڑیوں میں گھومنے پھرنے کا بے حد شوق تھا، جیسا کہ ہر بچے کو عموماً ہوتا ہے۔ اس لئے حاجی صاحب کا قائد اعظم ؒ کی گاڑی چلانے، اور اس سلسلے میں ہندوستان کے دور دراز علاقوں کے دورے کرنے کی کہانیوں نے بچوں میں مجھے خصوصی طور پر حاجی صاحب سے ایک محبت پیدا کی تھی۔ جب وہ تشریف لاتے تو میں کھیل کود چھوڑ چھاڑ کر حاجی صاحب کے پہلو میں بیٹھتا اور ان سے قائد کے بارے میں کہانیاں اور موٹر کار میں کسی دور سفر کا قصہ بڑے شوق سے سنتا۔ حاجی صاحب کے بقول وہ ایک موٹر شو روم میں ایک پارسی سیٹھ کے ہاں ڈرائیور تھے۔ محمد علی جناح کی اس سیٹھ سے دوستی تھی۔ انہوں نے سیٹھ صاحب کو ایک ڈرائیور فراہم کرنے کو کہا تھا۔ مگر شرط یہ رکھی تھی کہ ان کے ڈرائیوروں میں جو سب سے اچھا اور قابل اعتماد ہو، اور اگر وہ نسلاً پٹھان ہو… اور بہتر رہے گا۔ سیٹھ صاحب کے تمام ڈرائیوروں میں برکت داد نوجوان بھی تھا اور پٹھان ہونے کے علاوہ ایک اچھا ڈرائیور تھا۔ سیٹھ صاحب نے ٹرائل بیسز پر نوجوان برکت داد کو قائد اعظم ؒکے حوالے کیا۔ ایک ہفتے بعد قائد اعظم ؒے برکت داد کے بارے میں سیٹھ صاحب کو ”او کے“ رپورٹ دے دی اور اس طرح حاجی برکت داد صاحب قائد کے ہاں کئی سال تک ڈرائیور کے طور پر کام کرتے رہے۔ حیرت انگیز طور پر جن باتوں کے بارے میں حاجی صاحب نے مجھے بتایا، کالج کے زمانے میں قائد اور تحریک پاکستان کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ تمام باتیں حرف بحرف درست ثابت ہوئیں۔ مثلاً حاجی صاحب نے قائد کے شملہ اجلاس میں شرکت کے بارے میں تمام تفصیلات بتائیں اور کہا کہ :’ جناح صاحب اس اجلاس میں شرکت کے لئے دوسرے سیاسی لیڈروں کے ساتھ ان کی گاڑی میں گئے تھے، تاکہ سیاسی معاملات پر دوران سفر ان کے ساتھ گفتگو کا موقع ملے۔ مجھے حکم دیا تھا کہ میں اپنی گاڑی شملہ لے آؤں، تاکہ واپسی پر ہم اپنی گاڑی میں آ سکیں۔“اس سفر کے دوران حاجی صاحب نے پیش آنے والے دلچسپ واقعات کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا تھا، مگر وہ بحث یہاں ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ حاجی صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ : ”قائد کا حکم یہ تھا کہ جو کوئی ملاقات کے لئے آتا ہے، اسے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر مجھے اطلاع دیا کریں۔ مگر مولانا شبیر احمد عثمانی ؒکے بارے میں ان کا حکم یہ تھا ، کہ حضرت جب بھی تشریف لائیں، ان کو انتظار کی زحمت دیئے بغیر سیدھا میرے کمرے میں پہنچایا کریں۔ ایک دن مولانا تشریف لائے، تو حسب حکم میں ہی ان کو سیدھا قائد کے کمرے میں لے گیا۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ قائد جائے نماز پر سجدے میں پڑے ہیں اور گڑ گڑا کر رو رہے ہیں۔ انگریزی زبان میں ان کے منہ سے کچھ الفاظ بھی نکل رہے تھے، جو میری سمجھ میں نہیں آ رہے تھے۔ میں اور مولانا کافی دیر تک بے حس و حرکت کھڑے رہے۔ جب قائد نے سجدے سے سر اٹھایا تو یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے آہنی عزم کے اس انسان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ اس پر مولانا نے تسلی کے یہ الفاظ اردو زبان میں کہے محمد علی … ! برصغیر کے مسلمانوں کی خاطر آپ نے جس ذمہ داری کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ مجھے الله کی ذات پر یقین ہے کہ وہ اس کام میں آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ میں واپس گیٹ پر آیا، اور اس دن مولانا بہت دیر تک قائد کے ساتھ رہے“۔ مجھے کتاب کا حوالہ اس وقت یاد نہیں، مگر جب میں نے کالج کے زمانے میں شبیر احمد عثمانیؒ اور ان کے مسلم لیگ اور قائد اعظم کے ساتھ تعلق کے بارے میں پڑھا تو اس میں مولانا کی یہ گواہی بھی موجود تھی ۔ حاجی برکت داد صاحب بالکل ان پڑھ تھے۔ اگر وہ لکھے پڑھے ہوتے تو گمان کیا جا سکتا تھا کہ اس نے کسی کتاب میں پڑھ کر یہ واقعہ خوامخواہ اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ حاجی صاحب کی یہ بھی گواہی تھی کہ قائد وقت نماز کی پابندی کرتے تھے ۔ پورے ہفتے کی تمام نمازیں گھر پر اپنے کمرے کی جائے نماز پر پڑھتے تھے، البتہ جمعہ کی نماز کے لئے باقاعدہ خصوصی طور پر صاف کپڑے پہن کر مجھے گاڑی نکالنے کے لئے کہتے اور ہم اکٹھے جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد جاتے۔ (ممتاز دانشور محمد فاروق کی کتاب ” کامیاب ریاست، ناکام باشندے “ 11سے 9کا ایک باب)

Comments (0)
Add Comment