اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق اور علاقے کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دینے بارے درخواست پر حکومت کو تیار کردہ ڈرافٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ آئینی ترمیم کے بغیر نشستیں مختص نہیں ہو سکتی، ہم پارلیمنٹ کوہدایات نہیں دے سکتے ، صرف زیر غور لانے کا کہہ سکتے ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ گلگت بلتستان کی معاشی حالت کو بہتر بنانا چاہئے، گلگت بلتستان پاکستان میں بجلی کی کمی پوری کر سکتا ہے۔ بطور ریاست زیادہ سے زیادہ حقوق گلگت بلتستان کو ملنے چاہئیں،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت کو یہ نہ بتایا جائے کہ زمینی حقائق تبدیل ہو گئے ہیں۔انھوں نے یہ ریمارکس پیر کے روزدیئے ۔اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں گے، فنڈز بحال کیے جائیں گے، گلگت بلتستان حیثیت کے تعین کیلئے قانون سازی میں وقت لگے گا، گلگت بلتستان کو پارلیمنٹ میں 3 نشستیں دی جائیں گی۔وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئین میں گلگت بلتستان کا نام موجود ہے، گلگت بلتستان کے رہائشی کو فرسٹ کلاس شہری نہیں سمجھا جاتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملہ کے بین الاقوامی اثرات بھی ہوں گے، گلگت بلتستان کے لوگوں کے وہی حقوق ہیں جو پاکستانی شہریوں کے ہیں، وہاں کے لوگوں کو سیکنڈ کلاس شہری نہ کہیں، یہ بڑا حساس ایشو ہے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ الفاظ کے چناؤ میں احتیاط کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو سیکنڈ کلاس شہری کہنے کے الفاظ واپس لیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پاکستان کو شرمندہ نہ کریں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ گلگت بلتستان کی حیثیت کا تعین پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ موحود ہے جس کے تحت گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان کے شہری ہیں،گلگت بلتستان کے لوگ محب وطن پاکستانی ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں عدالت کیا حکم دے؟۔ وکیل نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو پاکستانی شہری تسلیم کیا ہے تو پھر قانون سازی میں کردار دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت بھی یہی کہہ رہی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ نے کرنی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا حکومت 2 دنوں میں تیار کیا گیا ڈرافٹ پیش کر سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی تو ڈرافٹ میں بہت سی تبدیلیاں ہوں گی، عدالت ایک ہفتے کی مہلت دے تو ڈرافٹ پیش کرنے پر اعتراض نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی مشترکہ ڈرافٹ بن کر آ جائے تو اس کو عدالتی حکم نامے کا حصہ بنا دیں گے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جمعہ کو ڈرافٹ لے آئیں، اگر کوئی تبدیلی ہوئی تو بعد میں بھی کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کو ہم ہدایات نہیں دے سکتے، پارلیمنٹ کو صرف زیر غور لانے کا کہہ سکتے ہیں، انشااللہ گلگت کے لوگوں کو یہ حق ضرور ملے گا۔