کراچی (اسٹاف رپورٹر) ماہر امراض چشم و پاکستان میڈیکل ایسو سی ایشن کے مرکزی رہنما ڈاکٹر قاضی محمد واثق نے امت کو بتایا کہ کسی بھی وجہ سے آنکھ کا شفاف حصہ ناکارہ ہونے سے سفید ہو جاتا ہے، جس سے بچوں کے متاثر ہونے کی بڑی وجوہات میں گھر و اسکولوں میں نوکیلے فرنیچر، نوکدار کھلونے، کھلونا پستول، پینسل کی نوک، قینچی اور سوئیاں لگنے سے سب سے زیادہ آنکھوں کی انجریز ہوتی ہیں، اسی طرح بڑوں میں ویلڈنگ، چونا، سیمنٹ آنکھ میں جانے اور ماحولیاتی آلودگی اور آنکھوں کو خوبصورت بنانے کیلئے کونٹیکٹ لینسز کا بے دریغ استعمال بڑی وجوہات ہیں، جس کے نتیجے میں آنکھوں کے امراض اور اندھے پن میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ رنگین کونٹیکٹ لینسز سے آنکھوں کو آکسیجن کی فراہمی میں خلل واقع ہوتا ہے اور مسلسل استعمال سے آنکھیں کمزور ہوجاتی ہیں، اسی طرح آنکھوں کے انفیکشن اور متعدی بیماریوں میں بروقت علاج نہ ہونے سے بھی آنکھ کا قرنیہ متاثر ہوتا ہے، جبکہ آلودہ ماحول میں رہنے کے بعد اچھے طریقے سے منہ نہ دھونا بھی بینائی متاثر کرسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قرنیے پہلے صرف سری لنکا سے آتے تھے، لیکن اب امریکہ سے بھی آرہے ہیں اور ملک بھر میں سالانہ1400 سے لیکر 1500 افراد کو ہی قرنیہ کی پیوند کاری کی سہولت مل پاتی ہے، 2017 میں کراچی میں 400 افراد کے قرنیہ تبدیلی کے آپریشن ہوئے۔ کراچی، پشاور، کوئٹہ ، ملتان ، بہاولپور ، لاہور سمیت ملک کے دیگر شہروں میں ایل آر بی ٹی اور پاکستان آئی بینک سمیت دیگر فلاحی اداروں کی جانب سے امراض چشم و قرنیہ کی پیوند کاری کے حوالے سے بہت کام ہو رہا ہے، تاہم زیادہ تر کام عطیات پر ہو رہا ہے اور ایک قرنیہ منگوانے پر 300 ڈالر کا خرچ آتا ہے جو عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے جبکہ اسے خریدا یا بیچا نہیں جاسکتا اور نہ ہی گردے کی طرح کسی زندہ انسان سے قرنیہ لیکر اسے دوسرے شخص کو لگایا جا سکتا، اس لئے بیرون ممالک سے قرنیے منگوانے کے حوالے سے جتنا بھی کام ہورہا ہے وہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں انتہائی ناکافی ہے اور اس سے نمٹنے کا واحد حل شہریوں میں بعد از مرگ قرنیہ عطیہ کرنے کا رجحان پیدا کرنا ہے۔ بعد از مرگ آنکھ کی پتلی نکالنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ تصور انتہائی غلط ہے کہ آنکھ نکالنے سے مرنے والے کے چہرے میں بگاڑ یا میت کی بے حرمتی ہوگی کیونکہ اس عمل کے دوران پوری آنکھ نہیں بلکہ عدسہ (کورنیئل بٹن) لیا جاتا ہے اور مرنے والے کی آنکھیں بند ہوتی ہیں، اسلام انسانیت کی خدمت کا درس دیتا ہے اور علما کرام کا اعضاعطیہ کرنے سے متعلق فتویٰ بھی موجود ہے، جبکہ اس ضمن میں کوئی مذہبی پابندی نہیں ہے، صرف شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔