اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ) سپریم کورٹ نے منرل واٹر کمپنیوں کو پیر تک اپنے معاملات درست کرنے کی مہلت دے دی جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر پیر تک معاملات درست نہ ہوئے تو فیکٹریوں کو بند کر دیں گے۔منرل واٹر کمپنیوں کو زیرزمین پانی نکالنے کی قیمت ہر صورت ادا کرنی ہوگی اور منرل واٹر کمپنیاں بند ہونے سے کوئی پیاسا نہیں مرے گا۔ اپنے پیسے بنانے کے لیے لوگوں کو بے وقوف بنایا ہوا ہے، لوگوں کو منرل پانی کی کمپنیوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے ۔انھوں نے یہ ریمارکس پیر کے روزدیے ہیں ۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں منرل واٹر کمپنیوں کے پانی کی فروخت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دریائے سندھ اور نہر کا پانی منرل واٹر کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، کمیشن رپورٹ دیکھ کر دل کرتا ہے تمام کمپنیاں بند کر دیں۔اس دوران منرل واٹر کمپنی کے وکیل نے موٴقف اپنایا کہ واٹر کمپنیوں کو بہتری کے لیے وقت دیا جائے۔اس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پانی کسی صورت چوری نہیں کرنے دیں گے، زیر زمین پانی کی قمیت ہر صورت ادا کرنی ہو گی۔چیف جسٹس پاکستان نے کمپنیوں کو ایک ہفتے میں نظام ٹھیک کرنے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ نظام ٹھیک نہ کیا تو کمپنیاں بند کردیں گے، نظام بہتر کرنے پر ہی کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت دیں گے۔جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھاکہ اپنے پیسے بنانے کے لیے لوگوں کو بے وقوف بنایا ہوا ہے، لوگوں کو منرل پانی کی کمپنیوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، کمپنیاں بند ہونے سے کوئی پیاسا نہیں مرے گا۔اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کمیشن رپورٹ کے مطابق کمپنیوں کے پاس پانی ٹیسٹ کرنے کا نظام نہیں۔کمیشن کے رکن نے بھی عدالت کو بتایا کہ کراچی میں زیر زمین پانی کی سطح 1300 فٹ تک پہنچ چکی، پنجاب میں نہریں خشک ہو چکیں، سیوریج کے پانی سے سبزیاں اگ رہی ہیں، آلودہ پانی بغیر ٹریٹمنٹ زیرزمین بہا دیا جاتا ہے، 7 ارب لیٹر پانی منرل واٹر کمپنیاں ماہانہ نکالتی ہیں، سندھ میں صنعتیں نہری اور دریائے سندھ کا پانی مفت استعمال کررہی ہیں، کوئی صنعت پیسہ دے بھی رہی ہے تو وہ خزانے میں نہیں جاتا۔کمیشن کے رکن کی بریفنگ پر چیف جسٹس نے ایک بار پھر کہا کہ صاف پانی کی کمپنیاں پیر تک اپنے معاملات درست کر لیں، اگر پیر تک معاملات درست نہ ہوئے تو فیکٹریوں کو بند کر دیں گے۔اس موقع پر کمپنی کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ تمام کمپنیاں پانی کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں، فیکٹریاں ٹیوب ویل سے نکالے گئے پانی کا معاوضہ ادا کرنے کو تیار ہیں اور ٹیوب ویلز پر میٹر لگا دیے جائیں، ضائع شدہ پانی پر معاوضہ ادا نہیں کیا جاسکتا۔چیف جسٹس نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ سیدھی اور اردو میں بات کریں، کیا آپ نے پانی کے پیسے دینے ہیں یا نہیں بتائیں، اس پر وکیل نے کہا کہ ہم پیسے دینے کو تیار ہیں۔جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اربوں روپے کا پانی چوری کر گئے اور لوگوں کو ایک بوند پانی میسر نہیں، 6 ارب لیٹر روز کا پانی استعمال کر رہے ہیں، اس پر ایک پائی بھی ادا نہیں کی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو منگل کو زیر زمین نکالے گئے پانی پر قیمت ادا کرنی ہوگی۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ان کمپنیوں سے کوئی ہمدردی نہیں، گندہ پانی سبزیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور وہ سبزیاں ہم کھاتے ہیں، قوم کے ساتھ دھوکا بند کیا جائے، ہم بچوں کے لیے گندہ پانی استعمال نہیں ہونے دیں گے۔جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ ایک ہزار ارب اعتزاز احسن کے موکل سے بھی لوں گا، یہ دونوں رقوم مل جائیں تو دونوں ڈیمز کیلئے کسی اور سے پیسے لینے کی ضرورت نہیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ منرل واٹر کمپنیاں عوام کو بیوقوف بنا رہی ہیں، کمپنیوں کو پانی کی قیمت ہر صورت ادا کرنی ہوگی، 7 ارب روپے ماہانہ کے حساب سے سالانہ 84 ارب بنتے ہیں، اس حساب سے 9 سال میں 756 ارب روپے منرل واٹر کمپنیوں سے جمع ہونگے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ منرل واٹر کمپنیوں سے پیسہ مل جائے تو ڈیم کے لیے کسی سے رقم لینے کی ضرورت نہیں، کمپنیاں 50 روپے کی بوتل کا حکومت کو ایک روپیہ نہیں دیتی، عوام کو چاہیے کہ منرل واٹر کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں، گھڑے کا پانی کمپنیوں کے پانی سے صاف ہوتا ہے کمپنیاں ہمارے بچوں کی زندگیاں برباد کر رہی ہیں۔