اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)احتساب عدالت نمبر2کے جج محمد ارشد ملک کی عدالت میں زیر سماعت العزیزیہ سٹیل مل اور فلیگ شپ ریفرنس میں گذشتہ روز سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پیش نہیں ہوئے اور سماعت شروع ہونے پر ان کے وکیل کی طرف سے استثنیٰ کی درخواست جمع کراتے ہوئے بتایا گیا کہ نواز شریف کے گھٹنے میں تکلیف ہے جس کی وجہ سے وہ پیش نہیں ہوسکتے۔بعد ازاں پراسیکیوٹر واثق ملک کی طرف سے حتمی دلائل شروع کیے گئے جن میں ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے آئے جس کی ادائیگی تسلیم اور ثابت شدہ ہے ۔ نواز شریف کے مطابق یہ رقوم تحفے کی شکل میں ملیں ،ملزم نے عدالت میں گفٹ کی بابت کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ،ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے ہل میٹل کا 88 فیصد منافع نواز شریف کو ملا، ہل میٹل سے ٹوٹل 97 فیصد رقم پاکستان آئی۔عدالت نے پوچھا کہ جب قطری آیا ہی نہیں تو اس کے خطوط کی کیا حیثیت ہے ؟ نیب پراسیکیوٹرنے جواب دیا کہ یو اے ای کے جواب کے بعد قطری خطوط کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ،ملزمان کا موقف ہے کہ العزیزیہ اسٹیل مل کے تین شراکت دار تھے۔ عدالت نے پوچھا کہ العزیزیہ اسٹیل مل کے کسی ریکارڈ میں میاں محمد شریف کا نام ہے ؟۔ نیب پراسیکیوٹرکاکہناتھاکہ العزیزیہ کی کسی بھی دستاویز میں میاں محمد شریف کا نام نہیں ،فروخت معاہدے میں حسین نواز کا نام ہے۔ عدالت نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عدالت میں جھوٹ بولنا کلچر بن گیا ہے،مدعی، وکیل اور ملزم سب جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں، پھر جج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انصاف پر مبنی سچا فیصلہ دے ،یہ تو ایسے ہے کہ کسی کو دال چنے کا سالن دے کر کہا جائے کہ اس میں سے بوٹیاں نکالو۔ عدالت نے کہا کہ اگر العزیزیہ کی وضاحت آ جاتی ہے کہ وہ کیسے لگائی گئی تو اگلے کاروبار کا تو آپ کو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ نیب پراسیکیوٹرنے کہاکہ ظلم تو ملزمان نے ریاست کے ساتھ کیا ،بغل میں ریکارڈ رکھ کر بیٹھے رہے اور کہتے رہے کہ یہ ڈھونڈیں،العزیزیہ کے قیام کی ہی تو وضاحت نہیں کی گئی ،ریکارڈ جان بوجھ کر چھپایا گیا ۔ ملزم کمپنیز کی ان کارپوریشن سرٹیفیکیٹ ،بینک ریکارڈ اور میمورینڈم آف آرٹیکل پیش کر سکتے تھے ،ملزمان یہ دستاویزات پیش کرتے تو پتہ چلتا کہ کمپنی کس نے رجسٹرڈ کرائی ،کتنا سرمایہ لگایا،حسین اور حسن نواز اشتہاری ڈیکلیئر ہو گئے لیکن عدالت میں پیش نہیں ہوئے،اگر یہ بات سچ ہے کہ سرمایہ دادا نے دیا تو حسین اور حسن پیش ہوکر ثابت کرتے ، سارا بار حسن اور حسین نواز پر منتقل کر دینا اور ان کا یہاں سے بھاگ جانا،ملزم نواز شریف ٹیکنیکلٹی کے پیچھے چھپنا چاہ رہے ہیں ،حسن اور حسین نواز شریف کے دور پرے کے رشتے دار نہیں بلکہ بیٹے ہیں، حسن اور حسین نواز کو تو اپنے پیدائش سے پہلے کی باتیں بھی پتہ ہیں لیکن نواز شریف کو نہیں پتہ۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا نیب تسلیم کرتا ہے کہ یہ سب میاں شریف کی سرمایہ کاری تھی ؟ نیب پراسیکیوٹرنے جواب دیا کہ یہ ملزمان کا ڈیفنس ہے کہ سرمایہ کاری کی گئی ،نیب اسے تسلیم نہیں کرتا۔نواز شریف کہتے ہیں کہ میرے بیٹے نے مجھے تحفے کے طور پر رقم دی ،حسین نواز نے جو پیسے بھیجے اس میں یہ نہیں کہا کہ یہ تحفہ ہے ،حسین نواز نے پیسے بھیجنے کا مقصد سرمایہ کاری ظاہر کیا ،کچھ رقوم براہ راست ایچ ایم ای کی طرف سے بھجوائی گئیں۔یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حسن اور حسین نواز کے کوئی ذرائع آمدن تھے ،حسن اور حسین نواز نے کبھی دعویٰ بھی نہیں کیا کہ انہوں نے کاروبار کیلئے خود سرمائے کا انتظام کیا،نواز شریف بھی یہی کہتے کہ میرے والد نے کاروبار شروع کیا تھا ،نواز شریف نے کبھی یہ نہیں کہا کہ بچوں نے اپنے کئے گئے کاروبار سے پیسے بھیجے ،یہ ناقابل یقین بات ہے کہ تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والا شخص کہے کہ اْسے کچھ پتہ نہیں،سیاست میں آنے کے بعد نواز شریف نے اپنے شیئرز بچوں کے نام پر منتقل کرنا شروع کر دئیے، نواز شریف کا روزمرہ خرچ ان کی آمدن سے کہیں زیادہ ہے،العزیزیہ اسٹیل مل کے اصل مالک کو چھپانے کیلئے سازش کی گئی ،بے نامی دار خود کو اصل مالک کہہ رہے ہیں لیکن اپنے اصل مالک ہونے کا ثبوت نہیں دے رہے ،کیس کے تمام ملزم اپنا اپنا کردار نبھا رہے ہیں ،جلا وطنی کے دنوں میں سعودی عرب میں نواز شریف کو شاہی مہمان کہا گیا نہ کہ میاں شریف کو ،سعودیہ پہنچتے ہی چار ماہ میں العزیزیہ نے آپریشن شروع کر دیا ،العزیزیہ کا اتنا بڑا سیٹ اپ تھا کوئی دکان تو نہیں تھی جو اتنا جلدی کام شروع کردے، یہ سارے عناصر ہیں جو وائٹ کالر کرائم میں آتے ہیں ،قطری خط کے ساتھ پیش کی گئی ورک شیٹ پر قطری شہزادے کے دستخط نہیں ،نائن اے فائیو کے تحت بار ثبوت کے تمام جزو پورے کئے ہیں۔،نیب پراسیکیوٹرنے دلائل مکمل کر لیے ۔