اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے خیبر پختونخوا کے اسپتالوں کے فضلے کی تلفی کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ پاکستان تحریک انصاف والے اتنے سالوں سے کہہ رہے تھے کہ ہسپتالوں کی حالت بہترکر دی ہے، 5 سال سے کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، 5 سالوں سے ہسپتالوں میں فضلہ ٹھکانے کا نظام نصب نہیں کر سکے؟ کن بنیادوں پر آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کے پی کو جنت بنا دیا گیا ہے۔صوبے میں ذہنی امراض کے ہسپتالوں میں لوگ جانوروں کی طرح رہ رہے ہیں، لوگ اپنے گھروں میں جانور اور کتے بھی ایسے نہیں رکھتے۔انھوں نے یہ ریمارکس پیر کے روزدیے ہیں ۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سماعت شروع ہوئی تو صوبائی سیکرٹری صحت عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے اس موقع پر استفسار کیا خیبرپختونخوا کے وزیر صحت کیوں نہیں آئے، سیکرٹری صحت ہر بار پیش ہو جاتے ہیں۔چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت سے استفسار کیا کہ آپ نے پشاور مینٹل اسپتال کا دورہ کیا ہے جس پر انہوں نے کہا گزشتہ ہفتے گیا تھا۔چیف جسٹس نے کہا وہاں انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر حالت میں رکھا جا رہا ہے، لوگ اپنے گھروں میں کتوں کو بھی اس طرح نہیں رکھتے، سیکرٹری صحت خیبرپختونخوا نے کہا کہ آپ کے دورے کے بعد بہتری کے لیے کافی اقدامات کیے ہیں، ایک الگ کیمپس بھی قائم کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ‘میں سیمپل لایا تھا وہاں دوائیاں زائد المعیاد ہیں اور ڈاکٹر بھی نہیں جاتے، کن بنیادوں پر آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کے پی کو جنت بنا دیا گیا، صوبے کی حالت بدترین ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خیبرپختونخوا حکومت کے پاس فضلے کو ٹھکانے لگانے کی کتنی صلاحیت ہے، جس پر صوبے کے سیکریٹری صحت نے جواب دیا کہ ہماری صلاحیت 36 سو کلو گرام فضلے ٹھکانے لگانے کی ہے، 4 سو 80 کلو گرام فضلہ ٹھکانے لگانے کے لیے 20 کروڑ روپے مختص کر دیے ہیں۔چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت کو کہا کہ ذہنی امراض کے ہسپتال میں لوگ جانوروں کی طرح رہ رہے ہیں، اس طرح لوگ اپنے گھروں میں جانور اور کتے بھی نہیں رکھتے، ہسپتالوں میں زائد المعیاد ادویات نکلتی ہیں، آپ بلند دعوے کرتے ہیں کے پی کے کو جنت بنا دیا ہے، میں تو کہتا ہوں چلیں چل کر ہسپتال کی حالت دیکھ لیتے ہیں۔چیف جسٹس کی جانب سے کے پی کے کی صحت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبہ کی کارگردگی پر بھی اظہار عدم اطمینان کیا گیا، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ کس بنیاد پر کے پی کے کو صحت اور تعلیم میں جنت بنانے کی بات کرتے ہیں، مریضوں کو ادوایات میسر نہیں ہوتیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان تحریک انصاف والے اتنے سالوں سے کہہ رہے تھے کہ ہسپتالوں کی حالت بہترکر دی ہے، 5 سال سے کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، 5 سالوں سے ہسپتالوں میں فضلہ ٹھکانے کا نظام نصب نہیں کر سکے؟عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ وزیر صحت کے پی کے عدالت آتے نہیں ہیں، سیکریٹری صحت عدالت میں آجاتے ہیں، نجی ہسپتالوں کا فضلہ کس نے اٹھانا ہے، ہسپتالوں کے فضلے سے انفیکشن ہو جاتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں تین چار دن بعد دوبارہ دورہ کر کے دیکھوں گا کہ کیا بہتری آئی ہے۔عدالت نے کیس کی سماعت 2 ماہ کے لیے ملتوی کردی۔سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ خیبرپختونخوا کے 63 سرکاری اسپتالوں میں 4 ہزار کلو فضلہ روزانہ نکلتا ہے اور مشینیں 3600 کلو فضلہ تلف کرسکتی ہیں۔اس موقع پر جسٹص اعجاز الاحسن نے کہا کہ اب بھی صوبے کے اسپتالوں میں 480 کلو فضلہ تلف نہیں ہوتا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا صوبائی حکومت اسپتالوں کا فضلہ ٹھکانے لگانے کا بندوبست نہ کرسکی۔سیکرٹری صحت نے کہا کہ کے پی کے 158 پرائیویٹ اسپتالوں میں 860 کلو فضلہ روز نکلتا ہے، نجی اسپتالوں کی فضلہ تلف کرنے کی صلاحیت 532 کلو روزانہ ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دسمبر 2019 تک فضلے کے مکمل خاتمے کا ہدف دیا ہے جس پر سیکرٹری صحت نے کہا کہ کوشش کریں گے اگلے سال جون تک معاملہ حل کر دیں۔