ڈیفنس کار دھماکےمیں بھی بی ایل اے ملوث ہونے کا شبہ

کراچی(اسٹاف رپورٹر)تحقیقاتی اداروں نے ڈیفنس کار بم دھماکے کی تحقیقات 2 پہلوؤں پرشروع کردیں۔ ذرائع کے مطابق درخشاں تھانے کی حدود ڈیفنس خیابان مجاہد گلی نمبر 33 کے پلاٹ نمبر 36 پر کھڑی سفید رنگ کی کار میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب ہونے والے بم دھماکے کی تحقیقات میں پیش رفت ہوئی ہے، تفتیشی ذرائع کا کہناہے کہ دھماکے میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے ملوث ہونے کا امکان ہے، 3 دہشت گرد مذکورہ گاڑی اور موٹرسائیکل پر علاقے میں پہنچے، دہشت گردوں نے حملے کے بعد فائرنگ بھی کی، دہشت گرد چینی باشندوں کو نقصان یا خوف پھیلانے آئے تھے، جائے وقوعہ کے اطراف مختلف بنگلوں میں چینی باشندے رہائش پذیر ہیں، دہشت گردوں نے گاڑی کو اڑانے کیلئے ڈبل آئی ای ڈی سسٹم نصب کیا تھا،گیس سلینڈرز کے ساتھ جڑا آئی ای ڈی سسٹم پھٹ نہ سکا،آئی ای ڈی سسٹم کے ساتھ 6 میٹر سے زائد ڈیٹونیٹر کورڈ جوڑی گئی تھی،چینی قونصلیٹ پربھی بلوچ علیحدگی پسند جماعت نے حملہ کیا تھا،تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ کار بم دھماکے اور چینی قونصلیٹ پر حملے میں ممکنہ طور پر ایک ہی گروہ ملوث ہونے کا شبہ ہے، دریں اثنا دھماکے کا شبہ کالعدم سندھو دیش لبریشن آرمی پر بھی کیا جا رہا ہے اور تانے بانے16 نومبر کو قائد آباد میں ہونے والے دھماکے سے بھی جوڑے جارہے ہیں۔شہر میں آپریشن کے دوران پکڑے جانیوالے بلوچستان اور سندھ کی علیحدگی پسند تنظیموں کے دہشت گردوں نے افغانستان میں این ڈی ایس اور را سے تربیت کا انکشاف کیا تھا۔ سی ٹی ڈی کے مظہر مشہوانی کے مطابق ڈیفنس دھماکے کے بعد بم ڈسپوزل اسکواڈ نے بارودی مواد کے 2 پیکٹ تحویل میں لے لئے تھے ،ایک 2 کلو اور دوسرا 6 کلو وزنی محفوظ حالت میں تھا ،جبکہ تباہ شدہ کار نمبر AAW-716 کا سی این جی سلنڈر اور گھریلو استعمال کی گیس ایل پی جی کے 6 سلنڈر جو گرین ڈارک گرین،لال اور براؤن رنگ تھے ملے تھے۔ان سے گیس لیک ہورہی تھی ،جبکہ 6 میٹر ڈیٹونٹیگ کورڈ بھی ملی تھی۔واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔معاملہ کلیئر ہونے پر پریس کانفرنس کرکے شو کریں گے۔ تحقیقاتی ادارے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے اس طرح کے شواہد ملے ہیں کہ کار کے اندر نصب 8 کلو بارودی مواد ریموٹ کنٹرول سے چلایا گیا اوربارودی مواد کو سی این جی اور ایل پی جی کے سلینڈر سے جوڑ کر دوسرا بڑا دھماکہ کیا جانا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کار جمشید کوارٹرز میں ارشد اعوان کے گھر کے نیچے سے شام 6 بجے چوری کی گئی اور پلاٹ پر رات سوا تین بجے لائی گئی۔ بعض عینی شاہدین کے مطابق ملزمان موٹر سائیکل پر 9 منٹ قبل پلاٹ سے فرار ہوئے تھے۔ تحقیقاتی اداروں کا کہنا ہے کہ دیسی ساختہ بارودی مواد کو کار میں نصب کرکے سی این جی اور ایل پی جی سلنڈروں کا استعمال کرنے کا طریقہ پہلی مرتبہ ٹیسٹ کیا گیا ہے۔ ملوث دہشت گردوں اور مقامی سہولت کار کی گرفتاری کیلئے تفتیش کی جاری ہے۔۔پولیس حکام اس بات کا جواب دینے میں ناکام ہیں کہ 23 نومبر کو چینی قونصل پر حملے کے ملزمان کس طرح وہاں تک پہنچے اسی طرح جگہ جگہ ناکے ہونے کے باوجود دہشت گردوں کے جمشید کوارٹرز سے ڈیفنس فیز فائیو میں اس مقام تک پہنچنے کا سراغ بھی نہیں مل سکا۔ ایس ایچ او ارشد جنجوعہ کا کہنا ہے کہ کار میں بم دھماکہ نہیں ہوا تھا ،بلکہ دونوں پیکٹ نما بم محفوظ مل گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی تفتیش کررہی ہے۔ علاقہ مکینوں، گاڑی مالک سے تفتیش کے ساتھ ساتھ خفیہ کیمروں کی ریکارڈنگ دیکھی جارہی ہے ،جو مذکورہ پلاٹ کے اطراف کے علاوہ جمشید کوارٹرز سے ڈیفنس کے اس پلاٹ تک نصب ہیں۔ دوسری جانب سی ٹی ڈی پولیس نے ایس ایچ او درخشاں ارشد جنجوعہ کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے ملزمان کی تلاش شروع کردی ہے ۔

Comments (0)
Add Comment