کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم عمران خان کو کرنسی کی قدر میں گراوٹ سے لاعلم ہونے کے بیان پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔بی بی سی کے مطابق اگر کسی وزیراعظم کے کرنسی کی قدر میں ممکنہ گراوٹ سے قبل از وقت باخبر ہونے یا نہ ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ معاشی پالیسی میں اسے کتنی ذاتی دلچسپی ہے۔نوازشریف کو معاشی امور کا زیادہ علم نہیں ہوتا تھا اوروہ اس معاملے میں سمدھی اسحاق ڈار پر بھروسہ کرتے تھے۔بینظیر بھٹو معاشی پالیسی کےچھوٹے نکتوں پربھی معاشی ٹیم سےبحث کرتی تھیں۔عمرن کے بارے میں گمان یہی ہے کہ معاشی امور میں وہ زیادہ تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر انہیں روپے کی قدرمیں ہونے والے اتار چڑھاؤ کا زیادہ علم نہیں تھا، تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ۔رپورٹ کے مطابق کراچی میں ایک نظام کام کر رہا ہے جسے انٹر بینک مارکیٹ کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں تمام نجی و سرکاری بینک مل کر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر متعین کرتے ہیں۔اگر ملک کی2تین بڑت درآمد کنندگان کو بڑے ٹھیکے مل جائیں تو انہیں مطلوب ڈالرز کی ضرورت کیلئے اسی انٹر بینک مارکیٹ سے ڈالر خریدنا ہوں گے لیکن اس سے مارکیٹ میں موجود ڈالرز کم ہو جائیں گے اور اچانک دباؤ پر ڈالر مہنگا ہوجائے گا ۔جیسے اوگرا کی ذمہ داری ہے کہ گیس سلنڈر بیچنے والے سردیوں کے آتے ہی مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمت نہ بڑھائیں۔ کرنسی کے معاملے میں یہی کردار اسٹیٹ بینک کا ہوتا ہے۔اسٹیٹ بینک کو لمحے لمحے کی خبر ہوتی ہے کہ کون ڈالر خرید رہا ہے، کون بیچ رہا ہے اور اگر کوئی بڑی مقدار میں ڈالر خریدتا یا بیچتا ہے تو اسٹیٹ بینک کو اس سے سوال پوچھنے کا حق ہے۔ کوئی خریدار بلا جواز بڑی مقدار میں ڈالر خریدے تو اسٹیٹ بینک مداخلت کر کے اسے ایسا کرنے سے روک سکتا ہے۔ تاہم ماضی کے تجربات کے پیش نظرعموماً ایسا ہوتا نہیں کہ کرنسی مارکیٹ میں بھونچال ہو اور حکومت مداخلت نہ کرے۔